رہا بلکہ اکثر دینی حلقوں میں وہ اس حوالے سے اپنی مخصوص شناخت رکھتا ہے ۔ اس سلسلے میں وہ یوں اظہار افسوس کرتا ہے :
خدا کا حکم مسلمان ہو کے توڑ دیا
جہاد جیسے فریضہ کو ہم نے چھوڑ دیا
کس نے کہا عابد و زاھد نہیں ہے تو
افسوس تو یہ ہے کہ مجاہد نہیں ہے تو
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اثرؔ کی شاعری میں ایک جہت اضافی ہے اور وہ ہے اپنے شیخ و مصلح سے والہانہ تعلق اور ان کے احسانات کا ذکر نیز مخلوقِ خدا کو ان سے اکتسابِ فیض کی دعوت کا جذبہ تو یہاں بھی اس کی شعر گوئی کا سلیقہ اظہار سے ابلاغ تک اپنے اندر ایک شانِ دلربائی لئے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کسی کی سمت نہ دیکھا ترے حصول کے بعد
یہی دلیل مرے حسنِ انتخاب کی ہے
ضعیفِ میکدہ سے وہ ملے پیرِ مغاں بن کر
مقابل ہو اگر نو عمر تو نوخیز ہے ساقی
اُس ایک پھول کی خوشبو بسی جہان میں ہے
جو پھولپور سے گلشن میں گلستان میں ہے