تحفہ حرمین شریفین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہونگیں اور نہ اسکی خوشبو پائینگی) (۳)ان يكون کثيفا، برقعہ کا کپڑا موٹا ہو (۴) ٲن يکون واسعا برقعہ کشادہ ہو (چست نہ ہو ) (۵)ان توضع العباءة علی هامة الرٲس إبتدا برقعہ کی ابتدٲ سر سے ہو ،یعنی سر سے نیچے کی طرف لٹکایا جائے یعنی کاندھے سے نیچے ایک حصہ اوراوپر کی اوڑھنی الگ ایسا نہ ہو بلکہ ایک ہی کپڑا سر سے نیچے کی طرف ہو۔{وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ} [النور: 31] ترجمہ: اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں،عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللہ عنها قالت كان الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مع رسول اللهِ ﷺ مُحْرِمَاتٌ فإذا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا من رَأْسِهَا على وَجْهِهَا فإذا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ. مسند أحمد وسنن أبي داود بَاب في الْمُحْرِمَةِ تُغَطِّي وَجْهَهَا. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ سفرِ حج میں ہمارے قریب سے حاجی لوگ گذرتے تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہو تھیں (چونکہ احرام میں عورت کو منہ پر کپڑا لگانا منع ہے اس لئے ہمارے چہرے کھلے ہوئے تھے اور چونکہ پردہ کرنا حج میں بھی لازم ہے اس لئے) جب حاجی لوگ ہمارے برابر سے گذرتے تو ہم بڑی سی چادر سر سے گراکر چہرہ کے سامنے لٹکالیتے اور جب حاجی لوگ آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتے ۔(رواہ احمدوابو داود) فائدہ : اگر نا محرموں سے چہرہ چھپانا لازم نہ ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور دیگر صحابی عورتیں حاجی لوگوں سے چہرہ چھپانے کا کیوں اہتمام کرتیں ۔عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:كَمْ تَجُرُّ الْمَرْأَةُ مِنْ ذَيْلِهَا قَالَ شِبْرًا قَالَتْ إِذًا يَنْكَشِفَ عَنْهَا قَالَ ذِرَاعٌ لَا تَزِيدُ عَلَيْهَا .(ابوداود ونسائی)