ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
نہیں بللکہ مقصود کی معین ہے اور اس کا درجہ محض تدابیر طیبہ کا درجہ ہے وہ فی نفسہ طاعات نہیں اس لئے ان کو بھی بدعت نہیں کہہ سکتے جیسے تدابیر طیبہ کو کوئی بدعت نہیں کہتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ تدابیر ہر سالک کے لئے اختلاف احوال سے مختلف ہوتی ہیں چنانچہ ایک خان صاحب نوعمر اورا نگریزی تعلیم یافتہ مگر سمجھدار یہاں آئے تھے تین روز یہاں پر رہے اس کے بعد وطن پہنچ کر مجھ کو مکھا کہ میرے اندر کبر کا مرض ہے میں نے لکھا کہ یہی مضمون درمیان میں کچھ وفقہ دیکر پانچ مرتبہ مجھ کو دو انہوں نے ایسا ہی کیا بفضلہ تعالیٰ مرض جاتا رہا - غالبا پانچ خط پورے بھی نہں ہوئے تھے چار ہی آئے تھے مرج کا ازالہ ہوگیا تو یہ تدبیر ان کے مناسب تھی عام نہیں اور میرے اس لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ جو تین روز یہاں رہ کر گئے ان کی طبیعت کا مجھ کو اندازہ ہوگیا کہ غیور طبیعت ہے اور فہم میں سلامتی ہے اس مضمون کوبار بار اعادہ کرنے سے خود طبیعت میں غیرت آوے گی کہ ایک ہی بات کو بار بار پیش کرنا اور اس دفع نہ کرنا شرم کی بات ہے چنانچہ یہی ہوا تو اب کوئی معترض صاحب سے پوچھے کہ اس میں کون سی بدعت کی بات ہے اگر ہے تو طبیعت جسمنای کی تدابیر بدعت کیوں نہیں مابہ الفرق دونوں میں کیا ہے جبکہ ہم ان تدابیر کو بھی مقصود بالذات سمجھ کر اختیار نہیں کرتے - اس میں جابات ہے جس کے سبب نفس ایک کو اختیار کرتا ہے دوسرے کو بدعت کہتا ہے میں اس کو ظاہر کئے دیتا ہوں وہ یہ کہ امراض جسمانی کو تو امراض سمجھا جاتا ہے اس لئے طبیب جسمانی کی تدابیر کو بدعت نہیں کہتے اور اس کو ازالہ مرض کے لئے اختیار کیا جاتا ہے اور امراض نفسانی کو امراض ہی نہیں سمجھا جاتا اس لئے طبیب روحانی کی تدابیر کو بدعت کہتے ہیں تاکہ اس کے ٹالنے کا بہانہ مل جاوے اور یہ سب علمی و عملی غلطیاں ان جاہل اور دکانداروں کی بدولت ہوئیں جس سے خود طریق بھی بدنام ہوگیا اب الحمد للہ حقیقت کھل گئی -