ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
صاحب ابن عربی کے اقوال کا زور شور رد کرتے ہیں مگر خود ان کو کچھ نہیں کہتے بلکہ ان کو مقبول کہتے ہیں یہ ادب مگر ابن القیم ابو الحسن شعری کے باب میں بہت بیبا کی ہیں جو غلو ہے - اس کے بعد فرمایا کہ میں تو بہت ڈرتا ہوں ان فقیروں کو کچھ کہتے ہوئے کیونکہ وہاں یہ کون دیکھتا ہے کہ کون بڑا مولوی ہے وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہم سے اس بندہ کا کیسا علاقہ ہے - ممکن ہے کہ اس متکلم سے اس متکلم فیہ کا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ زیادہ صیحح اور قوی ہو اس لئے ادب کی سخت ضرورت ہے نیز اس میں احتیاط بھی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص قابل ادب نہ ہو اور اس کا ادب کرلیا جائے جہاں دین کا کوئی ضرر نہ ہو تو کوئی گناہ نہیں اور اگر قابل ادب ہے اور اس کے ساتھ بے ادبی کو تو اس پر مواخذہ ہوگا میں اپنے ادب طبعی کو کیا عرض کروں ابوطالب حضور کے چچا ہیں تو حضور کے انتساب کیوجہ سے ہمیشہ حضرت ابوطالب زبان پر آتا ہے باقی عقیدہ جو ہے وہ ہے تو ہر چیز اپنی جگہ پر رہنی چاہئے عقیدہ ککی جگہ ادب ادب کی جگہ بے جگہ استعمال کرنا ایسا ہے جیسے ایک گاؤں میں ایک شخص اتفاقا کھجور کے درخت پر چڑھ گیا چڑھ تو گیا مگر اترا نہ گیا سارا گاؤں جمع ہوگیا مگر اوپر سے اتارنے کی تدبیر کسی کی سمجھ میں نہ آئی تب گاوں والوں نے بوجھ بجکڑ کو بلایا وہ آئے درخت کے نیچے کھٹرے ہو کر او پر تلے غور کیا اور سر ہلایا گویا سمجھ گئے اور حکم دیا ایک مضبوط رسہ لاؤ - رسہ آیا کہا کہ اس میں پھندا لگاؤ اور پھینک دو اس سے کہا کہ تو پکڑ لینا اور پھندا کمر لگالینا اس غریب نے بوجھ بجکڑ کی تعلیم پر عمل کیا جب کمر میں بندھ گیا تو نیچے کے لوگوں سے کہا کہ لگاؤ جھٹکا لوگوں نے جھٹکا دیا پٹاخ سے نیچے آپڑا ہڈی پسلی ٹوٹ گئیں بھجہ نکل کر دماغ سے الگ کیا - لوگوں نے کہا کہ یہ کیسی تدبیر کی وہ تو مرگیا کہا کہ مرگیا اس کی قسمت میں نے تو سیکڑوں آدمی اس تدبیر سے کنویں سے نکلوائے ہیں بس آج کل کے عقلاء اسی رنگ کے ہیں کہ قیاسیات فاسدہ سے رہ شے کو بے محل استمال کرتے ہیں جس کا انجام ہلاکت ہے اگر علم صیحح اور عمل صیحح کی ضرورت ہو تو اس کی ضرورت صرف