ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
جماعت کا شخص ہے تنگی ہوتی اس لئے میں پہلے عرج کئے دیتا ہوں کہ میں عامل بالحدیث ہوں میں نے کہاکہ آپ کے صدق اور خلوص کی قدر کرتا ہوں اور میں بھی صاف بتلائے دیتا ہوں کہ ہمارے یہاں اتنی تنگی نہیں کہ محض فرعی اختلاف سے انقباض ہو ہاں جن لوگوں کا شیوہ بزرگوں کی شان میں گستاخی کرنا اور بد تمیزی اور بد تہذیبی سے کلام کرنا ہے ایسے لوگوں ضرور لڑائی ہے یہ مولوی صاحب حسین عرب صاحب کے پوتے ہیں جو بھو پال میں تھے کئی روز رہے اور بڑے لطف سے رہے ویسے بھی آنجھیں کھل گئیں کیونکہ ان لوگوں کو عامل بالحدیث ہونے کا بڑا دعوی ہے دوسروں کو بدعتی اور مشرک ہی سمجھتے ہیں کہتے تھے کہ یہاں پر تو کوئی بات بھی حدیث کے خلاف نہ دیکھی دو مسئلے بھی پوچھے ایک تو یہ کہ اہل قبول سے فیض ہوتا ہے یا نہیں میں نے کہا کہ ہوتا ہے اور حدیث سے ثابت ہے اس پر ان کو حیرت ہوگئی کہ حدیث سے اہل قبول سے فیض ہونا کہاں ثابت ہوگا اس لئے کہ ساری عمر حدیث میں گذر گئی کسی حدیث میں نہیں دیکھا میں نے کہا کہ سنئے ترمزی میں حدیژ ہے کہ کسی صحابی نے لا علمی میں ایک قبر پر خیمہ لگالیا وہاں ایک آدمی سورہ پڑھ رہا تھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا یہ سورت مردہ کو عزاب قبر سے نجات دیتی ہے دیکھئے قرآن کا سننا فیض ہے یا نہیں اور مردے سے قرآن سنا تو اہل قبور سے فیض ہوا یا نہیں بے حد سرو ہوئے خوش ہوئے کہا کہ آج تک اس طرف نظر نہ گئی دوسرا مسئلہ سماع موتی کا پوچھا اور کہا اتنک لا تسمع الموتیٰ قرآن میں ہے جس سے اس کی نفی معلوم ہوتی ہے میں نے کہ حدیث میں وقوع سماع مصرح ہے اور آیت سے نفی نہیں ہوتی اس لئے کہ یہاں پر حق تعالیٰ نے کفار کو متی سے تشبیہ دی ہے اور تشبیہ میں یک مشبہ ہوتا ہے اور ایک شبہ بہ اور ایک وجہ تشبیہ جو دونوں مشترل ہوتی ہے تو یہاں وہ عدم سماع مراد ہے جو موتی اور کفار میں مشترک ہے اور اموات کا سماع و عدم سماع تو معلوم نہیں مگر کفار کا تو معلوم ہے کہ قران و حدیث کو سنتے ہیں مگر وہ سماع نافع نہیں