ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
بفرض محال اگر احکام اسلام اور شریعت کو پا مال کر کے ترقی ہو بھی گئی تو یہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی تو کہلائے جانے کی قابل ہوگی نہیں تو پھر اپنے کو مسلمانوں میں شمار کر کے کیوں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہو جو دل مین ہے صاف ہی کہہ دو اور جو قوم پہلے سے حکومت یافتہ اور ترقی یافتہ ہے اس میں کھلم کھلا ہی کیوں نہیں مدغم ہو جاتے باقی اس کتر بونت سے کیا فائدہ کہ کہیں قرآن کے معنے بدلتے ہیں کہیں حدیث کو جھٹلاتے ہیں یہ نیچریت بھی ذندقہ اور الحاد کا زینہ ہے پھر اس ترقی کے حدود ہیں نہ اصول میں نے ایک مرتبہ اپنے بیان کے اندر لکھنو میں اس کے متعلق بیان کیا تھا اس بیان میں نو تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ تھا جس میں اکثر وکلاء اور بیر سٹر بھی تھے میں نے بیان کیا تھا کہ ترقی ترقی کے ترانے تو سنے جاتے ہیں لیکن اس کے کچھ اصول حدود بھی ہیں یا نہیں کیا ہر ترقی مطلوب اور محمود ہے اگر کوئی حدود اور اصول نہیں اور ہر ترقی مطلوب ہے تو مرض کی وجہ سے جو جسم پر ورم ہوجاتا ہے کہ جس سے وہ فربہ نظر آنے لگتا ہے تو یہ بھی ترقی کی ایک قسم ہے تو اس کے انسداد یا ازالہ کی تدابیر طبیبوں اور ڈاکٹروں سے کیوں کرتے پھرتے ہو اور کیوں فیس دیتے ہو جو جواب تم اس کا ہم کو دوگے وہ ترقی مطلوب اس کو اسمل نہیں وہی جواب تم کو ہم اس کا دیں گے کہ جو ترقی حدود شرعیہ سے تجاوز کر کے یا احکام اسلام کو پا ملا کر کے تم حاصل کروگے وہ ترقی مسلوب اس کو شامل نہیں اس پر سب کوش ہوئے اور بہت زیادہ اثر ہوا خدا معلوم تدابیر مشروع اور منصوصہ پر عمل کرتے ہوئے کیوں سر کٹتا ہے ارے بطور امتحان ہی ان پر عمل کر کے دیکھ لو کوئی زپر تو نہیں ہے کہ گلے سے اترنے ہی ہلاکت ہوجائے گی یا کوئی سانپ تو نہیں کہ ہاتھ لگاتے ہی تم کو ڈس لے گا اخر تم ہی سمجھو کہ ساری عمریں تمہاری بھی کھپ گئیں اب تو تجربہ بھی ہوگیا پھر بھی آنکھیں نہیں کھلیتی مشاہدات واقعات کے بعد تو رائے بدل جاتی ہے اخر کیا اب تک دوسروں کی گدا گری نہیں کرچکے ہو اب ذرا ان کے سامنے بھی سر رکھ کر دیکھ لو اور یہ سر کر دیکھنا اگر اخلاص سے نہیں توبہ