ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
تم یہاں اس لئے لائے ہو کہ پیر بھی خوش ہوں گے اور مدرسہ کا بھی نفع ہو جائے گا کہنے لگے کہ واقعی بالکل صیحح ہے تب میں روپیہ واپس کیا اور کہا کہ یہ تو ایک قسم کا شرک ہے کہ دین کا کام رضائے خلق کے لئے کیا جاوے مجھ کو اس طرح کا روپیہ لیتے ہوئے غیرت معلوم ہوئی یہاں میں ایک اشکال کا جواب دیتا ہوں وہ یہ کہ ایسے موقع پر معترضین انبیاء علہیم السلام کے واقعات پیش کر دیتے ہیں کہ کیا تبلیغ میں ان حضرات کے ایسے ہی اخلاق تھے مگر معترضین یہ بتلائیں کہ وہ معتقدین کے ساتھ تھے یا کافروں کیساتھ اور وہ بھی اس لئے تھے کہ پیغمر پر ایمان لاگوں پر فرض ہے اگر انبیاء سے تو حش ہوجاوے توکافر کے کافر رہیں - اور امتیوں پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے اگر ایک امتی سے متوحش ہوں دوسری طرف رجوع کریں اس فرق پر ایک واقعہ یاس آیا ایک نواب صاحب تھے سرحدی پٹھان وہ حج کے سفر میں تھے جب بمبئی پینچے تو گورنمنٹ نے گورنر کو حکم دیا کہ خان صاحب کی مزاج پرسی کرو اور کسی چیز کی ضرورت ہو حاضر کرو گورنر جہاز پر ملنے گئے تو اس وقت خان صاحب ایک مسہری پر آرام کر رہے تھے احمد حسن سہارنپوری انسپکٹری پولیس تھے وہ بھی اسی جہاز میں تھے ایک شخص ان سے نقل کرتے تھے کہ خان صاحب ویسے ہی لیٹے رہے اٹھ کر بھی نہیں بیٹھے اور گورنر نے جو سوال کیا تو نہایت روکھا اور ضابطہ کا جواب دیا جب گورنر چلے گئے تو انسپکٹر صاحب نے کہا کہ خان صاحب گورنر اس وقت آپ کے مہمان تھے مہمان ہونے کی حثیت سے ان کی مدارت کرنا چاہئے تھی کم از کم اٹھ کر تو بیٹھ جاتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کفار کی مدارات کی ہے - خان صاحب نے وہی پٹھانوں والا جواب دیا کہ سنو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری کرنی تھی مجھ کو پیغمبری کرنا نہیں یہ جواب اپنے عنوان سے تو سوء ادب کا ہے مگر اس کا معنون یہ ہے کہ کفار کو مومن بنانے کی حکمت سے آپ اسی مداراۃ کے مامور تھے اور مجھ پر بوجہ امتی ہونے کے اس کا اہتمام ضروری نہیں تو پیغمبر اور غیر پیغمبر میں یہ فرق ہے اور یہ تو سب ان معترضین کے بہانے ہیں کہ اصلاح