خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ وَ یَذَرُوۡنَ وَرَآءَہُمۡ یَوۡمًا ثَقِیۡلًا ؎ دنیاوی محبت میں مبتلا ہیں یہ لوگ،اور چھوڑ بیٹھے ہیں اپنے پیچھے ایک گاڑھے دن کو۔ گاڑھے دن سے مراد موت کا وقت ہے، جس وقت دنیا کی محبت کی حقیقت کھل جاتی ہے اور یہاں کے سارے عیش و آرام تلخ ہوجاتے ہیں بیوی بچے بنگلے اور کاریں سب ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔یہ وہ وقت ہے۔اﷲ تعالیٰ فر ماتے ہیں کہ دنیا کی محبت میں ان کافروں نے اس گاڑھے وقت کو بھلا دیا ہے۔یہ بیماری تو کافروں کے اندرتھی،اب انہوں نے مختلف طریقوں سے اس کو مسلمانوں میں بھی پہنچا دیا۔ اب مسلمان کے پاس بھی جب تک کار نہ ہو، چار سو گز کے پلاٹ کا ایئرکنڈیشنڈ بنگلہ نہ ہو چاہے سودی قرضہ سے کیوں نہ بنوانا پڑے اس وقت تک اس کا معیار زندگی نہیں بنتا۔ اب مسلمان کی زندگی کا معیار کار اور بنگلہ رہ گیا ہے چاہے سودی قرضہ لینا پڑے،رشوت لینی پڑے، حرام مال کمانا پڑے کسی سے دریغ نہیں بس معیار زندگی بنانا ہے۔ لیکن یہ زندگی بننا نہیں ہے۔ زندگی بنتی ہے اﷲ کے راضی ہو نے سے اور بگڑتی ہے اﷲ کے ناراض ہو نے سے اگر اﷲ ناراض ہے تو چاہے تمہارا دل اور ساری مخلوق یوں کہے کہ واقعی تم نے بڑی ترقی کی خاندان کی ناک اونچی کرد ی، مخلوق کے ماشاء اﷲ کہنے اور تعریف کر نے سے یہ زندگی نہیں بنتی ۔کل ان وزیر خارجہ قسم کے لوگوں کو جو مولویوں کو گولی سے اڑا دینا چاہتے ہیں معلوم ہو گا کہ معیار زندگی کس کا بلند ہے۔ جس کو یہ معیار ِ زند گی سمجھ رہے تھے اس کی کیا حقیقت ہے اور اصل معیار اﷲ کے نزدیک کیا ہے ؟ لوگ کہتے ہیں کہ دین کا کام سخت مشکل ہے لیکن یہ سب قلتِ محبت کی باتیں ہیں، جب محبت ہو جاتی ہے تو جوئے شیر لانا بھی آسان معلوم ہو تا ہے۔ اسی لیے جنہیں دنیا سے محبت ہے انہیں دنیا کے کام آسان معلوم ہو تے ہیں۔ انہیں لوگوں کو دین کے کام مشکل ہیں کیوں کہ انہیں اﷲ سے محبت نہیں۔ قصہ تو پھوہڑ ہے لیکن عبرت ناک ہے اور غیرت دلانے کے لیے کافی ہے ۔ ایک صاحب عشق مجازی میں مبتلا ہو گئے۔ رات کو ۵؍ میل جاتے ------------------------------