خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ہے تو ایک ہزار کا نوٹ پیش کردیا اور کہا کہ یہ تمہارا ہے جو چاہو خرچ کرو، پوتوں کو دو، نواسوں کو دو، اپنے ماں باپ کو دو، خود کھاؤ۔ حضرت حکیم الامّت نے لکھا ہے کہ بیوی کو وظیفہ دینا اس کا ایک حق ہے۔ اس کا نام ہدیہ ہے۔ کچھ رقم ہر ماہ اس کو دو جس کا اس سے حساب نہ لو کہ ایک ہزار روپیہ دیا تھا، کہاں خرچ کیا؟ ماضی میں بیوی پر ظلم کیا ہو تو اسے لپٹا کر معافی مانگ لو کہ جب سے شادی ہوئی ہے آج تک مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف کردو، اب ہم آیندہ آپ کو محبت سے رکھیں گے، کبھی نہیں جھڑکیں گے، نہ ڈانٹیں گے۔ ان کا ہر مہینہ ہدیہ مقرر کردو اور اس کا حساب نہ لو۔ غرض جن سے دل نہ چاہے ان کے ساتھ بھی اخلاق سے پیش آؤ۔ مخلوق ستائے تو اس کے لیے موت کی تمنا یا بیماری کی تمنا مت کرو، بس یہ کہو کہ اے اللہ! اس کو ہدایت دے دے، اس کے ظلم سے ہم کو نجات دے اور اس کو تلافی کی توفیق دے دے۔ ارے دوستو! قدر کرلو ایک دن اختر بھی قبر میں جانے والا ہے، یہ باتیں اللہ کی رحمت کے صدقے میں ہیں، ہماری اپنی کمائی اور مطالعہ نہیں ہے۔ بزرگوں کی صحبت اُٹھانے کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ وقت پر میرے دل پر مضامین عطا فرماتا ہے۔ آج اس زمانے میں روئے زمین پر اتنی صحبت اُٹھانے والا آپ کو نہیں ملے گا۔ ہر عالم اور ہر دینی مربی سے جاکر پوچھو کہ تم شیخ کے ساتھ کتنا رہے تو ان شاء اللہ میرا عرصۂ صحبت بڑھ جائے گا۔ دس برس تو میں اپنے شیخ کے ساتھ جنگل میں رہا اور سات برس اپنے مدرسہ کا ملاکر سترہ سال ہوئے اور تین سال یہاں، تین برس مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ، رات دن روزانہ بلاناغہ ان کی صحبت میں جاتا تھا۔ اور مولانا شاہ محمد احمد صاحب اتنے بڑے شیخ تھے کہ میرے شیخ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے ان کو اپنا پیر بنایا ہوا تھا۔ اور میرے شیخِ اوّل حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر گئے اور حضرت نے وہاں کی زمین اور آسمان کو دیکھا اور فرمایا کہ مولانا محمد احمد صاحب کا نور میں زمین سے آسمان تک دیکھ رہا ہوں، اتنا بڑا شخص اور حکیم الامّت کا