خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
اعلیٰ درجہ کا ہے تو اپنے اخلاق کی اصلاح کرائیے، ہم سب اپنے اخلاق کی فکر کریں، بعض وقت ایک خُلق اﷲ کو پسند آگیا، کوئی ایک عبادت بھا گئی اور اسی سے جنّت مل گئی۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ایک بد کار عورت جنگل میں جارہی تھی، ایک کنویں کے پاس ایک کُتّا پیاس سے مررہا تھا، اس بد کار عورت نے اپنا موز ہ نکالا اور اسے اپنے دوپٹے سے باندھا۔ بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوپٹہ اوڑھتی تھی، آج تو شریف لڑکیاں بھی سر سے دوپٹہ اتار چکی ہیں، اگر کسی نے بہت زیادہ شرافت دِکھائی تو گلے میں لپیٹ لیا یا کندھے پر ڈال لیا مگر سر کھلا ہوا ہے جبکہ بالوں کا کھولنا حرام ہے، حرام کاموں سے اُمّت کو فلاح کیسے ملے گی؟ لاکھ رات دن وظیفے پڑھ لو، وظیفوں سے کام نہیں بنے گا، جب تک اﷲ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا، اﷲ خوش نہیں ہوگا وظیفہ کچھ نہیں کر سکتا۔ گھر میں وی سی آر، ٹیلی ویژن، ننگی فلمیں، لڑکے لڑکیوں کا مخلوط نظامِ تعلیم جہاں لڑکیاں ننگے سر پڑھ رہی ہیں آپ بتاؤ کہ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے غضب اور قہر کے اعمال ہیں یا نہیں؟ جبکہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو نابینا صحابی سے پردہ کرایا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی دو بیویوں حضرت میمونہ اور حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے پاس تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبد اﷲ ابن امّ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حاضر ہوئے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو، دونوں بیویوں نے عرض کیا کہ اے اﷲکے نبی!یہ تو اندھے ہیں، فرمایا یہ اندھے ہیں تم تو اندھی نہیں ہو۔ تو دوستو! میں کہہ رہا تھا کہ اس بد کار عورت نے اپنا موزہ نکال کر دوپٹے سے باندھا پھر اسے کنویں میں ڈال کر پانی سے موزہ بھگویا اور کتے کے منہ میں نچوڑ کر اس کی پیاس بجھائی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی عمل پر اﷲ تعالیٰ نے اس کو جنّت عطا فرما دی۔ اخلاق کا درجہ دیکھا آپ نے! لیکن افسوس ہے کہ جو تصوف سیکھ رہے ہیں وہ بھی اخلاقیات کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں، جو خانقاہوں سے جڑے ہیں وہ بھی اخلاقیات کو اہمیت نہیں دیتے، حج اور عمرے تو خوب کرتے ہیں لیکن کسی مسلمان کو اذیت پہنچ جائے تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ لاؤ کم ازکم اس سے معافی تو مانگ