خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ہورہی تھی۔ وہ پہلوان تھا۔یہ اسد اﷲ تھے۔اسے گرالیا سینے پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور اس کے گلے پر تلوار چلانے والے تھے کہ اس نے منہ پر تھوک دیا ۔حضرت علی رضی اﷲ عنہٗ نے فوراً تلوار میان میں رکھ لی اور سینے سے اتر گئے ۔ اس کافر کو سخت تعجب ہوا پوچھا کہ آپ مجھے قتل کر نے سے کیوں رک گئے حضرت علی رضی اﷲعنہٗ نے جواب دیا ؎ تیغ را من از پئے حق می زنم عبد حقم نے کہ مامور تنم اس وقت میں تیغ اﷲ کے لیے چلا رہا تھا میں اپنے اﷲ کا بندہ ہوں اپنے نفس کا بندہ نہیں ہوں ؎ شیر حقم نیستم شیرِ ہوا میں اﷲ کا شیر ہوں خواہش ِنفسانی کا شیر نہیں ہوں۔ یہ ہیں اخلاص والے لوگ۔ ان کا کوئی عمل اپنے نفس کے لیے نہیں۔معلوم ہے اس کافر پر کیا اثر ہوا؟ اس نے فوراً کلمہ پڑھ لیا کہ یہ دین سچا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ یہ جھوٹا ہو، جس کے ماننے والے کوئی عمل اپنے لیے نہ کر تے ہوں بلکہ کسی اور کے لیے کر تے ہوں معلوم ہوا کہ یقیناً اﷲ تعالیٰ موجود ہیں ورنہ عمل میں اتنا اخلاص آہی نہیں سکتا تھا ۔پوری دنیائے کفر بلکہ کفر کی پوری تاریخ ایسی ایک مثال لا کر دکھائے۔ ہر گز ایک مثال ایسی نہیں مل سکتی۔ یہ تو مردہ جسم کو بھی نہ چھوڑیں۔ مرنے کے بعد حضرت حمزہ کا کلیجہ کھا لیا تھا یہ وہ قوم ہے۔ یہ ہمارا اسلام ہی ہے کہ عین جہاد کے وقت حکم دیتا ہے کہ اگر کافر بوڑھا ہے تو اسے قتل مت کرو ،تلوار خالی جوانوں پر چلےبوڑھوں بچوں اور عورتوں کو مت مارو، قید کر لو۔ قیدیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ،زخمی ہے تو مرہم پٹی کر نی پڑے گی۔ جو خود کھاؤ انہیں بھی کھلاؤ۔ صحابہ نے تو خود چنے چبا لیے ہیں اور عمدہ کھانا انہیں کھلا دیا ہے ۔نرمی کا تو یہ حال ہو کہ دشمنوں کے ساتھ بھلائی کرو اور سختی کا یہ حال ہو کہ ان کے حملے ان کے طعن تمہیں اﷲ کے راستے سے نہ ہٹا سکیں۔ ایمان کی علامت کیا ہے؟ دل میں مخلوق کا خوف نہ رہے کہ معاشرہ،ماں باپ،اعزا اقربا اورمحلہ والے کیا کہیں گے کہ انہوں نے داڑھی رکھ لی۔برا سمجھیں گے یا میرے اسلامی طریقوں پر طنزکریں گے۔ مخلوق سے نظر اٹھ جائے۔ بس