خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
نہ جانے کس وقت ختم ہو جائے۔ اس وجہ سے جہاں ہمیشہ رہنا ہے اس کی تیاری اسی دنیا میں رہ کر کرنی پڑے گی ورنہ جس وقت موت آجائے گی تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو رشوت دے کر ویزا بڑھوا لیا جاوے۔ موت ایک ایسی یقینی چیز ہے کہ اس کا کوئی منکر نہیں ہوسکتا،اور اس کے بعد کی آنے والی زندگی پر بھی ایک مسلمان کا ایمان ہے ۔اس لیے عقلاً آپ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ موت کے بعد کی زندگی کو بنانے کی تیاری کرنا ضروری ہے لیکن ہمعملی طور پر اس زندگی کو سنوارنے کے کام نہیں کرتے، جو محنت اس آنے والی زندگی کے لیے کرنا چاہیے اس سے غفلت برتتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اہل فکر کی صحبت میں نہیں بیٹھتے، جو لوگ ہمیں اس آنے والی زندگی کی یاد دلائیں ان کا ساتھ ہم نے چھوڑ دیا اسی وجہ سے عقلاً جانتے ہوئے بھی آخرت کی تیاری نہیں کرتے ۔صحبت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شطرنج میں عمر گزار نے والا اگر ڈاکٹر اور انجینئر کی صحبت اختیار کرتا ہے اور جب وہ ان کی زندگی کے معیار کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں فکر پیدا ہو جاتی ہے کہ مجھے بھی ایسا ہی بننا چاہیے،ا ب تک میں نے اپنی زندگی کہاں بے وقوفی میں ضایع کی،اس لیے وہ اس دنیوی زندگی کو بنانے والی محنت کو شروع کر دیتا ہے کیوں؟ اس وجہ سے کہ اس نے افکار دنیا کے شاہینوں کے ساتھ اڑنا شروع کر دیا۔ جب افکار دنیا کے شاہینوں کے پرِ پرواز اور ان کی رفتارِ پرواز کو دیکھ کر دوسرے میں اس میدان میں پرواز کی ہمت و شوق پیدا ہو جاتا ہے تو جو آخرت کے شاہین ہیں کیا ان کی رفتارِ پرواز کو دیکھ کر اڑنے کی ہمت پیدا نہ ہوگی؟آخرت کے شاہین الگ ہیں ۔ان کا میدانِ پرواز الگ ہے۔ اس میدان میں انبیاء اور اولیا اڑتے ہیں ان کی اس رفتار کاکوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ان کی رفتارِ پرواز نے انہیں نہ جانے کہاں پہنچا دیا۔افکار دنیا کے شاہین شداد،نمرود و فرعون ہیں جن کی لاشیں زمین میں گل سڑ رہی ہیں ، ذلیل ہیں، ان شاہینوں کا انجام ذلت ہے ،یہ تو سابق صدر اور سابق شاہ ہو جاتے ہیں کبھی کسی ولی کوبھی سابق ولی لکھا ہوا دیکھا ہے ،یہ قیامت تک سلطان الاولیاء، حضرت، مولانا، شاہ، کے لقب سے پکارے جاتے رہیں گے، ان کی عزت کو کبھی زوال نہیں کیوں کہ ان کی روحیں فانی مخلوقات سے منہ پھیر کر لَااُحِبُّ