خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
مرض اﷲ تک پہنچاتے ہیں تو ان کی مصیبت نے انہیں کیوں اﷲ والا نہ بنا دیا ،مصیبت تو موجود ہے۔ بس بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ان پر متوجہ نہیں،اﷲ تعالیٰ کی شانِ جذب کا پرتو ان کی ارواح پر نہیں پڑ رہا ہے،اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی طرف کھینچنا نہیں چاہتے۔پس رحمت و فضل خاصۂ خداوندی کی بھیک مانگتا رہے۔ہاں بعض کے لیے انہیں مصائب کو اپنی طرف کھینچ لینے کا سبب بنا دیتے ہیں۔معلوم ہو اکہ مصائب کی حیثیت صرف سبب کی تو ہو سکتی ہے یہ مسبِّب نہیں ہیں اصل چیز تو ان کا فضل و رحمت خاص وشانِ اجتباہے۔جب میاں کا فضل خاص و شان جذب شامل حال ہو جاتی ہے تب ہی بندہ ان کی طرف کھنچتا ہے ورنہ عمر گزر جائے اور ان کا راستہ نہ ملے ؎ گر نہ فضلت می کشیدے جان من رہ نیابم گرچہ ویراں شد بدن اسی طرح اگر ان کا فضل متوجہ نہ ہو تو مجاہدات و عبادات بھی ان تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں ہو سکتے، شیطان ایک منٹ میں سب پر پانی پھیر دیتا ہے۔ مولانا رومی نے مثنوی شریف میں ایک واقعہ لکھا ہے جو بظاہر تو فحش اور بھونڈا ہے لیکن اس مثال سے جو علوم مولانا نے اخذ کیے ہیں وہ مولانا ہی کا حصہ ہے ۔ دو امرد ایک سرائے میں رات کو ٹھہرے ،ایک امرد تو بالکل بے ریش تھا اور دوسرے کے چہرے پر داڑھی کے دو تین بال تھے جس کے بال نہیں تھے اس نے بد معاشوں سے اپنی حفاظت کے لیے پشت پر ستر اینٹیں لگائیں اور جس کے دو تین بال تھے اس نے کوئی اینٹ نہیں لگائی ۔جس نے ستراینٹیں لگائی تھیں لیکن چوں کہ چہرے پر بال نہ تھے رات میں بدمعاش نے اینٹیں ہٹا دیں اور وہ محفوظ نہ رہ سکا اور جس کے چہرے پر دو تین بال تھے وہ بچ گیا۔ اس واقعے سے مولانا سبق دیتے ہیں کہ اسی طرح اگر اﷲ تعالیٰ کا فضل متوجہ نہ ہو اور ان کی حفاظت نہ ہو تو شیطان ہماری عبادات کی اینٹیں ہٹا کر دل میں گھس جاتا ہے۔ دل میں ریاداخل کر دی ،حُبِّ جاہ داخل کر دی، عبادت پر تکبر ہو گیا کہ اب میں کچھ ہو گیا