ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
پیشہ تو یہ ہے کہ وہ شخص اس کام کی دوکان کھول کر بیٹھ جائے اور اعلان کرے کہ جس کو جو فرمائش کرنا ہو کرے میں پورا کروں گا اور لوگ اس سے فرمائش کیا کریں اور وہ لوگوں کی فرمائش پوری کیا کرے پیشہ یہ ہے باقی اگر کسی شخص میں کوئی ہنر ہو اور آزادی کے ساتھ جب جی چاہئے اپنے گھر بیٹھ کر وہ کام کرلیا کرے اور اس سے مال حاصل کرلیا کرے تو یہ پیشہ نہیں کہلائے گا بعض بڑے بڑے حکام بعض کام جانتے ہیں اور پنے ہاتھ سے کرتے ہیں اور بعض اوقات اس کے ذریعہ سے روپیہ پیسہ بھی کمالیتے ہیں مگر وہ کام ان کا پیشہ نہیں ہوجاتا - سلطان عبد الحمید خان مرحوم لکڑی کا کام بہت اچھا جانتے تھے تو کیا وہ عرفی بڑھئی ہوگئے اور کیا ان کو بڑھئی سمجھ کر کوئی شخص ان حکام سے یا سلطان عبد الحمید خان سے یہ کہہ سکتا ہے کہ صاحب ہمارا یہ کام کردو - اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق جو یہ وادر ہے کہ وہ لوئے کا کام جانتے تھے تو اس کا یہ مطلب تھوڑا ہی ہے کوئی شخص ان کے پاس اپنا گھرپا لے کر پہنچ جاتا کہ لیجئے یہ میرا کھرپا بنادیجئے اور کیا ان کا یہ التزام تھوڑی ہی تھا کہ وہ اس فرمائش کو ضرور ہی پورا کریں یہ فرق پے پیشے اور عدم پیشے میں تو بعض حضرات انبیاء علہیم السالم سے جو بعض کام ایسے منقول ہیں وہ بطور پیشے کے نہیں حضرات انبیاء علہیم السلام کا بجز توکل کے کوئی پیشہ نہ تھا اور کبھی کبھار اگر کسی نے کوئی کام کرلیا تو وہ بطور پیشے کے نہیں کیا مثلا ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ وارد ہے کہ حضور نے کبھی کبھی بکریاں چرائی ہیں تو وہ بطور پیشے کے نہیں اور وہ جو حدیث میں قراریط کا لفظ آیا ہے اس حدیث سے ہاجرت چرانے پر استدلال نہیں ہوسکتا جو اس سے پیشے کو ثابت کیا جاوے کیونکہ قراریط کے لفظ کے متعلق اختلاف ہوگیا ہے کہ یہ قیراط کی جمع ہے یا کسی مقام کا نام ہے اور اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال تو آج کل کے پیشہ ور لوگ جو بعض حضرات انبیاء علہیم السلام کے کاموں کو اپنے پیشوں کی سند میں بیان کرتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے حضرات انبیاء علہیم السلام کو تو حق تعالیٰ نے ہر ایسے کام سے محفوظ