ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے سلطنت تجویز فرمائی تو ہر ایک جدا حال ہے - ان قصوں میں پڑنے سے ایک مانع یہ ہے کہ فرقیقن کے اختلاف کے وقت اس میں شہادت ہوگی قبول شہادت میں شرط یہ ہے کہ ثقہ ہو اور اس وقت حالت یہ ہے کہ صورت تو ثقہ مگر اندر بے ایمانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے تو اس کا پتہ ہی چلنا مشکل ہے اس کا کیا اطمینان ہو گا کہ یہ شخص قابل شہادت کے ہے یا نہیں - اور میں تو کیا بلا ہوں کیا امید کروں کہ میرے سامنے کوئی جھوٹ نہ بولے گا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بعضے لوگ جھوٹ حلف کرلیتے تھے حضور کے سامنے اور جھوٹا حلف کیا ٹھکانا ہے اس بے ادبی اور گستاخی کا - خلاصہ یہ کہ نزاعیات میں دو چیزیں ہیں ای تو شرعی حکم وہ تو معلوم ہے اور ذہن میں ہے اور ایک ہے اختلاف تو فیصلہ میں زیادہ تر امراہم اس کا معلوم کرتا ہے سو اس کا علاج نہ کسی کے ذہن میں ہے نہ مقدمہ کی مثل دیکھ کر آسکتا ہے تو اگر اختلاف رہا تو پھر تجویز اور تنقیذ دونوں کیا کر سکوں گا مسلمانوں کی خدمت سے انکار نہیں مگر قدرت میں بھی تو ہو اور طالب علموں کو ایسے قصوں میں پڑنے سے سلف نے بھی منع فرمایا ہے چنانچہ امام محمد صاحب نے وصیت فرمائی ہے کہ علماء کسی دستاویز پر دستخط یا گواہی نہ کریں شامی نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے اور وجہ اس کی غور کرنے سے یہ ہے کہ اہل علم کو ایسے طریق پر رہنا چاہئے کہ وہ سب کی نظر میں یکساں ہوں کسی کے مخالف اور موافق نہ سمجھے جائیں ورنہ ان کو ایک فریق میں شمار کرلیا جاوے گا اور ان سے جو نفع عام ہورہا ہے وہ بند ہوجاوے گا - دیکھئے یہ اجازت اس وقت تھی جس کی بناء پر امام صاحب نے یہ فرمایا اور اب تو ویسے بھی لوگ علماء سے بد ظن ہیں اب تو بہت ہی احتیاط کی ضرورت پے پھر ان سب کے علاوہ خاص میری طبیعت اور حالت کا بھی یہی مقتضا ہے چنانچہ اگر آپ یہاں پر دو چار روز رہ کر دیکھیں تو معلوم ہو کہ میں سوائے ایک کام کے اور کسی کام کا نہیں ہوں اور تحریکات حاضرہ میں جو شریک نہیں ہوا اس کی ایک وجہ تو یہی تھی کہ اس مجموعہ کو