ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
یہ چاہتے تھے کہ توجہ و تصرف سے کام ہو جائے کچھ کرنا نہ پڑے - سو ہمتو طالب علم لوگ ہیں ہم کو توجہ وغیرہ نہیں آتی ہم کو تو حضرات انبیاء علیہم السلام کی سی تعلیم آتی ہے حضرات انبیاء علہیم السلام کا یہی کام تھا کہ تعلیم فرماتے تھے اور اس کے ساتھ شفقت اور دعاء سے بھی کام لیتے تھے اور یہ تصوف تو پہلوانی کی سی مشق ہوگئی کہ نظر کی گر پڑے اڑنگا لگا دیا گڑ پڑے اور اگر اصلی کام کرنے کے بعد کسی میں پہلوانی کی بھی صنعت ہو تو یہ بھی ایک مستقل کمال ہے گو غیر مقصود ہے مگر ایسے سے کیا پہلوانی کرے کہ جو ابھی چارا کچھ بھی نہیں جانتا فن سے بے اس پر کیا اڑنگا اور کیا داؤ اور ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ گو وہ من وجہ کمال تو ہے مگر کسی درجہ کا سو لوگوں نے چیزوں کو ولایت کے درجہ میں سجھ رکھا ہے مگر یہ محض لغو خیال ہے پھر استر دان مذکور مولوی صاحب کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک اس پر مجھ کو تعجب ہوا کہ ان مولوی صاحب نے کہا کہ معارف قرآن میں فلاں شخص سے ( اس سے مراد ہوں ) زیادہ جانتا ہوں اور تعجب اس پر نہیں کہ میرے علم کی نفی کی اس لئے واقع میں میں عالم نہیں اور نفی صیحح ہے سو اس پر تعجب نہیں مگر تعجب اس پر ہے کہ اپنے کو عالم لکھا - اور خدا جانے معارف قرآن کے معنے بھی سمجھتے ہیں یا نہیں کسی چیز کو معارف سمجھ لیا یہ سطحی لوگ ہیں پھر سطحی کی ایک مثال بیان کی کہ ایک مولوی صاحب میرے دوست ہیں اور ہیں بڑے ذہین ایک روز کہنے لگے کہ متبحر کی دو قسمیں ہیں ایک کدو متبحر اور ایک مچھلی متبحر کدو تو تمام سمندر پر پھر جاتا ہے مگر اس کو سنمدر کی تہ کی خبر نہیں اور مچھلی عمق میں پہنچتی ہے تو یہ آج کل کے متبحر کدو متبحر ہیں کہ اوپر ہی اوپر سطح کے پھرتے ہیں آگے اندر کی کچھ خبر نہیں واقعی بات تو کام کی کہی -