ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
مسلمانوں کو اس کی پروا نہیں اس لئے ان کو اس مصلحت کا اہتمام نہیں ہوا - اس کے بعد سے یہ سوال کرنا اس کی ایسی مثال ہے کہ مسجد میں ایک عالم امام ہیں جو ہر طرح پر نماز پڑھانے کے اہل ہیں مگر اہل محلہ ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اب ان سے یہ سوال کرنا بے ہودگی ہے کہ آپ کے پیھچے یہ لوگ نماز کیوں نہیں پڑھتے یہ سوال نہ پڑھنے والوں سے کرنا چاہئے کہ تم ایک عالم کے پیھچے جو ہر طرھ پر نماز پڑھانے کے اہل ہیں نماز کیوں نہیں پڑھتے وہ امام تو یہی کہیں گے کہ مقتدیوں سے پوچھو مجھے کیا خبر اس عدم اتباع اجتماع کا افسوس تو مسلمانوں کی حالت پر ہے کہ ان میں نہ قوت رہی نہ اتفاق رہا نہ دین رہا اگر دین ہو تو اتفاق ہو اور اتفاق ہو تو قوت ہو اور اگر مسلمان کسی قابل ہوتے تو پھر نصرت حق ان کیساتھ ضرور ہوتی کسی نے خوب کہا ہے - اس کے الفاط تو عام ہیں شہیدی سب پر تجھ سے کیا ضد تھی گر تو کسی قابل ہوتا بھلا خص درجہ کے مسلمانوں کا تو گاندھی سے کیا موازنہ ہوتا ہر عامی مسلمان حتی کہ فاسق سے فاسق فاجر کدا کے نزدیک ہر کافر سے افضل پے مگر جب مسلمان ہی کسی قابل نہ ہوں تو اس کا کیا علاج ہے رات دن کے مشاہدات اور واقعات ان کی عدم قابلیت کے پیش نظر ہیں اور پھر اس نا قابلیت کے ساتھ طرہ یہ کہ دوست دشمن کی قطعا مسلمانوں کو شناخت نہیں - تعجیب ہے کہ ایک غیر مسلم توحید اور رسالت کا منکر اپنی تدابیر سے اپنی قوم کو نفع پہنچانے کی سعی کرتا رہتا ہے اور فکر میں لگا ہوا ہے اور یہ مسلمان لیڈر اور ان کے ہم خیال بعض مولوی اس کو اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ اور ہمدر سمجھتے ہیں - کہتے غضب اور ظلم کی بات ہے اتنی موٹی بات مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو شخص اللہ اور رسول کا دشمن ہے اور توحید اور رسالت کا منکر ہے قیامت آجائے وہ کبھی اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ اور ہمدر نہیں ہوسکتے ہر کافر اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے اور یہ دشمنی محض مسلمانوں کے مال اور جان ہی تک محدود