ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
تھا کہ ان کو دیکھ کر حضور کو کلفت ہوتی اور اس میں حضرت وحشی کا نقصان تھا - میں نے یہی واقعہ ایک اور صاحب کو لکھ کر ان سے تعلق خاص رکھنے سے معذوری ظاہر کی انہوں نے بھی بہت ستایا تھا وہ صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ حضرت وحشی نے تو قتل کیا تھا میں نے قتل تھوڑا ہی کیا ہے مطلب یہ کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور استدلال غلط ہے میں نے جواب میں لکھا ہے بیشک حضرت وحشی کا جرم تمہارے جرم سے زیادہ عظیم تھا مگر انہوں نے کفارہ بھی تو ایسا ہی زبردست کیا تھا کہ اسلام لے آئے تھے اور تم نے س درجہ کا کفارہ کونسا کیا بس لاجواب ہوئے جب تک ذہن میں تاویل رہی ہانکتے رہے آج کل بولنا بھی کمال میں داخل ہوگیا مگر اس طریق میں چوں و چرا اور قیل و قال سے کام نہیں چل سکتا بڑی ضرورت اس کی ہے کہ جس سے تعلق محبت کا کیاجاوے اس کو کلفت نہ پہنچائی جاوے نہ معاملہ سے نہ زبان سے اور یہ فکر اور غور سے ہوسکتا ہے مگر مشکل تو یہ ہے کہ لوگوں نے فکر و غور کرنا قطعا ہی چھوڑ دیا میں تحدث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہوں کہ الحمد للہ میں جس طرح دوسروں کے لئے اصلاح کے طریق سوچتا رہتا ہوں اسی طرح اپنی اصلاح کے بھی طریق سوچتا رہتا ہوں اور سب مسلمانوں کو تو مرتے دم تک اپنی اصلاح کی فکر میں لگا رہنا ضروری ہے اور اسی میں خیر ہے اسی کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اندریں رہ می تراش و می خراش تادم آخر دمے فارغ مباش دیکھئے اگر کوئی شخص بیمار ہو اور لوگ اس کو بے فکر دیکھیں تو ہر چہار طرف سے اس پر لتاڑ پڑتی ہے جس سے وہ اپنے فکر میں لگ جاتا ہے اور لتاڑ کرنے والوں کو وہ مریض بھی اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتا ہے مگر اصلاح دین کے لئے نہ کوےئ لتاڑ کرتا ہے اور نہ لتاڑ کرنے والوں کو کوئی خیر خواہ اور ہمدرد سمجھتا ہے بہر حال - اس بیمار کی صحت کی امید ہے اور جو شخص بیمار تو ہے مگر وہ خود بھی اور دوسرے لوگ بھی اس کو تندرست سمجھے ہوئے ہیں ایسے شخص کی صحت