ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
عملی صور میں نہایت ہی پیھچے ہین - احتیاط کا تو ان میں نام و نشان نہیں - بس گھر میں بیٹھے ہوئے اسے بدعتی ہوئے اسے بدعتی کہہ دیا اسے مشرک کہہ دیا اور خود اپنی حالت نہیں دیکھتے کہ ہم کیا کررہے ہیں - میں نے استواٰ علیا لعرش کے مسئلہ کو تفسیر بیان القران میں اس طرح ترتیب دیا تھا کہ متن میں تو متاخرین کے قول کو رکھا تھا اور حاشیہ پر متقدمین کے قول اور متاخرین کے قول کو متن میں رکھنے کی بجز سہولت فہم عوام کے کوئی خاص وجہ نہ تھی لیکن یہ کیا معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر وقت اعتراض ہی کے لئے تیار رہتے ہیں - ایک غیر مقلد صاحب نے عنایت فرما کر اس طرف توجہ فرمائی اور اپنے خاص جذبات کا ثبوت دیا - اگر حدود فرما کر اس طرف توجہ فرمائی اور اپنے خاص جذبان کا ثبوت دیا - اگر حدود کے اندر مشورہ دیتے تو میں قبول کرلیتا - لیکن متاخرین کے طرز اور مسلک کو اور ان کے قول کو سراسر جہل اور اعتراض بتلایا - محض گستاخی اور بے باکی ہے اس لئے مجھ واقعی ناگوارا ہوا - مگر میں نے پھر بھی ان کی بکلہ انصاف کی رعایت سے متقدمین کا قول متن میں رکھ دیا اور متاخرین کا قول حاشیہ میں کردیا مگر یہ پھر بھی راضی نہیں ہوئے بلکہ ان بزرگ نے متاخرین کے مسلک کا تو ابطال کیا اور سلف کا مسلک جو بیان کیا تو بالکل مجسمہ اور شبہ کے طرز پر اور مجھ سے بھی اسی پر آصرار کیا - یہ ان معترضین کا علم ہے - یہ قابیلیت ہے یہ دین ہے اور پھر علمی مبحث میں قدم - ایک دفعہ مجھ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ ابن تیمہ اور ابن القیم کی تصانیف دیکھا کریں - میں نے کہا تم نے تو دیکھیں ہیں - تمہارے اندر بڑی شان تحقق پیدا ہوگئی - میں ہمیشہ ایسے مباحث میں پڑنے سے بچا اور یہی مسلک اپنے بزرگوں کا رہا مگر ضرورت کو کیا کروں جس وقت یہ بحث لکھ رہا تھا تو ہر جاہل شخص کو دیکھا کر رشک ہوتا تھا کہ کاش میں بھی جاہل ہوتا - تو اس مبحث پر ذہن نہ چلتا تو اس وقت جاہل ہونے کی تمنا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی فضل ایزدی نے دستگیری فرمائی اور یہ خیال آیا کہ یہ تمنا بھی تو علم ہی کی بدولت ہوئی تو جہل کو کسی حالت میں علم پر ترجیح نہیں - تب جاکر قلب کو سکون ہوا - ایسے دقائق میں صوفیہ کی توجیہ سب میں زیادہ اقرب دیکھی گئیں - ان سے بڑی تشقی