ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
جلسہ میں محمد علی یہ بیان کرچکے تھے کہ ترکوں کی طرف سے قرض کی درخواست ہے مگر میری رائے بجائے قرض کے ویسے ہی فی سبیل اللہ ان کی امداد کی جائے اس جلسہ میں اس کے متعلق مجھ سے بھی امام جامع مسجد نے بیان کی فرمائش کی میں نے بیان کیا کہ بعض صاحبوں کا یہ خیال ہے کہ اس موقع پر بجائے قرض دینے کے ترکوں کی امداد فی سبیل اللہ کی جائے مگر میری رائے اس کے خلاف ہے اور اس کے وجوہ ہیں ایک یہ کہ حکومت ترکی مسلمان ہے دوسری سلطنتوں کی نظروں میں اس کی تحقیر ہوگی کہ بھیک مانگنا شروع کردیا دوسرے یہ کہ ایک مرتبہ مسلمان امداد کردیں گے دو مرتبہ کردیں گے تین مرتبہ کردیں گے بالآخر کہاں تک پھر یہ ہوگا کہ میاں یہ تو روز روز کا قصہ ہوگیا اکتا کر امداد کرنا بند کردیں گے تو وہ صورت اختیار کرنی چایئے کہ جس سے نہ حکومت اور سلطنت ترکی کی تحقیر ہو اور مداومت کیساتھ امداد ہوتی رہے مسلمان امداد سے نہ اکتائیں وہ صورت یہی ہے کہ ان کو قرض دیا جائے اور جس وقت سلطنت ترکی میں وسعت اور گنجائش ہوجائے وہ سب کا قرض ادا کردے اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اگر ویسے کوئی شخص مثلا دس روپیے امداد میں دیتا تو بشرط گنجائش سو روپیہ دینے پر بطور قرض آمادہ ہوجائے گا کہ یہ رقم تو مجھ کو واپس ہی مل جائے گی حکومت ترکی کا اس میں نفع یہ ہے اس کو کافی امداد وقت پر پہنچ جائے گی اور کا وقار بڑھے گا اور ہمشہ کے لئے سلسلہ جاری رہ سکے گا میری اس رائے اور مشورہ کو سب پسند کیا - محمد علی مرحوم نے بھی مخالفت نہیں کی خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ب میں اپنے جلسہ وعظ کی طرف عود کرتا ہوں - جس میں آیت ان لارض یرثھا عبادی الصالحون پر شبہ کیا گیا - اور حقیقت میں ان کو شبہ ہی پیش آگیا کوئی نفس کی آمیزش یا شرارت نہ تھی غرض انہوں نے کہا کہ آیت میں صالحین کے متعلق زمین کا مالک بنایا جانا بیان فرمایا گیا ہے اور اس وقت معاملہ اس کے عکس ہے کہ غیر صالحین کو زین کا مالک منایا گیا - میں نے کہا کہ یہ قضیہ باعتبار جہت