ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
جاہل لو شبہ ہوتا ہے کہ شریعت نے تنگی سے کام لیا ہے - مگر اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ جیسے مادر زاد اندھے کی سمجھ میں رنگ کی حقیقت نہ آئے گی تو اس کو منع کرنا عین رحمت ہوگی اس لئے کہ وہ سمجھ نہیں سکتا - اگر کوئی سمجھائے بھی تب بھی سمجھ میں نہ آئے گا محض وقت ہی ضائع ہوگا اس لئے منع کرنا ہی رحمت ہوگا - یہ سب پریشانی ایک مدعی اجتہاد صاحب کی عنایت کی بدولت ہوئی اور اس بحث مٰن قلم اٹھانا پڑا خیر ان کی برکت سے بعضی باتیں کام کی ضبط میں آگئی چنانچہ ایک بات بڑے کام کی اور نہایت لطیف اس رسالہ میں یہ ہے کہ یہ اہل ظاہر استواء کو صفت مانتے ہیں اور عرش حادث ہے اور صفات قدیم ہیں تو جس وقت عرش نہ تھا استواء اس وقت بھی تھا اور جس وقت سماء نہ تھا نزول الی السماء اس وقت بھی تھا تو اس کے متعلق اس وقت کے اعتبار سے جو عقیدہ رکھا جائے وہی عقیدہ اس وقت کے اعتبار سے اب بھی رکھنا چاہئے میں نے جس وقت اس رسالہ کانام تجویز کیا ہے اس میں دماغ پر بڑا اثر ہوا ہر بات کا اس وقت استحضار تھا - نام میں یہ بات قابل لحاظ ہونا چاہئے کہ ایک تو گٹھل نہ ہو اور یہ کہ مقصود پر کافی دلالت کرے - بحمد اللہ اس میں یہ باتیں موجود ہیں یعنی تمہید الفرش فی تحدئد العرش رسالہ لکھنے کے وقت جو ہیت اور پریشانی کی حالت تھی اس سے ہر ہر جاہل کو دیکھ کر رشک کرتا تھا کہ کاش میں بھی جاہل ہوتا تو اچھا ہوتا میرا ذہن اس مبحث میں نہ چلتا اہل غلو تو بے خوف ہوتے ہی جو جی میں آیا کرلیا جو قلم میں آیا لکھ دیا ہیباک ہوتے ہیں چہروں پر بھی خشگی برستی ہے ملاحت نہیں ہوتی جیسے کوئی خوانخوار ہوتا ہے کہ ابھی لڑ مرے گا مگر با وجود اس کے بھی ہم لوگ ان کو اسقدر برا نہیں سمجھتے جس قدر یہ ہم کو برا سمجھتے ہیں ہر بات میں اپنا تو سب کو متبع بنانا چاہتے ہیں اور دوسروں کیا تباع سے ان کو خود عار ہے بکلہ تقلید کو حرام تک کہتے ہیں اگر یہ بات ہے تو اپنے مقلد بنانے کی دنیا کو کیوں دعوت دیتے ہو تمہاری ہی کیوں مانی جاوے تم کو اس کا حق کیا ہے ان ہی صاحب نے جو اس رسالہ کی تصنیف کے سبب بنے ہیں مجھ کو لکھا تھا کہ آپ ابن تیمہ اور ابن القیم