ملفوظات حکیم الامت جلد 6 - یونیکوڈ |
|
کے متعلق ایک حکایت سنی ہے کہ ایک شخص شیخ ابو لاحسن اشعری سے ملنے آئے اتفاق سے یہی مل گئے ان ہی سے پوچھا کہ میں ابوالحسن اشعری سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں کہ کہ آو میں ملاقات کرادوں گا میرے ساتھ چلو ابو الحسن اس وقت خلیفہ کے دربار میں جارہے تھے وہاں ایک مسئلہ کلامیہ پر اہل بدعت سے کلام کرنا تھا مناظرہ کی صورت تھی وہاں پہنچے وہاں سب نے تقریریں کیں بعد میں ابو الحسن اشعری جو تقریر کی اس سب کو پست کردیا جب وہاں سے واپس ہوئے تو اس وقت ان مہمان سے کہا کہ تم ابو الحسن اشعری کو دیکھا اس نے کہا کہ نہیں فرمایا میں ہی ہوں وہ شخص بے حد مسرور ہوا اور کہا کہ جیسا سنا تھا اس سے زائد پایا - مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی آپ نے سب سے پہلے گفتگو کیوں نہیں کی اگر آپ پہلے گفتگو کرتے تو ان میں سے کوئی بھی تقریر نہ کر سکتا ابو الحسن اشعری نے اس کا جو جواب دیا میں تو اس جواب کی بناء پر ابو لحسن اشعری کا معتقد ہوگیا کہا کہ ہم ان مسائل میں بلا ضرورت گفتگو کرنے کو بدعت سمجھتے ہیں لیکن اہل بدعت جب کلام کرچکے تو اب ہمارا کلام کرنا ضرورت کی وجہ سے ہوا بدعت نہ رہا پھر فرمایا کہ میں اس جواب سے ابو الحسن کا بے حد معتقد ہوں دو وجہ سے ایک اس لئے کہ اپنے بزرگوں سے اعتقاد بڑھا دوسرے یہ کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ متقدمین بلا ضرورت ایسے مسائل میں کلام نہیں کیا بضرورت کلام کیا اس سے میرے اس خیال کی تائید ہوئی جو میں پہلے سے سمجھے ہوئے تھا کہ یہ کلام بضرورت مدافعت تھا درجہ منع میں اسی طرح اس رسالہ میں میرا کلام کرنا بھی بضرورت ہوا اور حیرت ہے کہ ابو الحسن اشعری اتنے تو محتاط پھر ان پر ضلالت اور بدعت کا فتوی دیا جاوے اور جنہوں نے یہ فتوی دیا ہے انہوں نے خود استواء علی العرش کی ایسی تقریر کی ہے جس سے بالکل تجسیم وتمکن کا شبہ ہوتا ہے گو ان امراد تجسیم نہیں ظاہریت کے ضرر قائل ہیں مگر خیر اس کی تو بلا کیف گنجائش ہے لیکن اس کے ساتھ جو استواء کو صفت مانتے ہیں اس میں ان پر ایک سخت اشکال ہوتا ہے کہ عرض یقینا حادث ہے جب عرش نہ تھا ظاہر