الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صل النساء اطبی الی احجابھا الست یوم الحرب من ابطالھا "پردہ نشین عورتوں سے پوچھ لو، کیا میں لڑائی کے دن بہاروں کے کام نہیں کرتا۔ " قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بطریق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا تھا۔ کہ ان کا وار چل گیا۔ تلوار سر پر پڑی اور خود کو کاٹتی ہوئی گردن تک اتر گئی۔ بطریق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا۔ ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ خالد نے کہا "شگون اچھا ہوا۔ اور اب خدا نے چاہا تو آگے فتح ہے۔ " عیسائیوں نے خالد کے ہمرکاب افسروں کے مقابلے میں جدا جدا فوجیں متعین کی تھیں۔ لیکن سب نے شکست کھائی۔ اس دن یہیں تک نوبت پہنچ کر لڑائی ملتوی ہو گئی۔ رات کو باہان نے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ چکا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مال و زر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالا جائے۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ دوسرے دن ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ " کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو ہم اس سے صلح کے متعلق گفتگو کرنی چاہتے ہیں۔ " ابو عبیدہ نے خالد کو انتخاب کیا۔ قاصد جو پیغام لے کر آیا تھا، اس کا نام جارج تھا۔ جس وقت پہنچا شام ہو چکی تھی۔ ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی۔ مسلمان جس ذوق شوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس سکون و وقار، ادب و خضوع سے انہوں نے نماز ادا کی، قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ جب نماز ہو چکی تو اس نے ابو عبیدہ سے چند سوالات کئے ، جن میں ایک یہ تھا کہ تم عیسیٰ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ ابو عبیدہ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں : یا اھل الکتب لا تفلوا فی دینکم ولا تقولو اعلی اللہ الا الحق الھا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ و کلمنہ الفاھا الی مریم سے لن یستکف المسیح ان یکون عبد اللہ ولا الملٰکۃ المقربون تک۔ مترجم نے ان الفاظ کا ترجمہ کیا۔ تو جارج پکار اٹھا کہ " بے شک عیسیٰ کے یہی اوصاف ہیں اور بے تمہارا پیغمبر سچا ہے۔ " یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کے پاس واپس جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو، مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ چلے آنا۔ دوسرے دن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ رومیوں کی لشکر گاہ میں گئے۔ رومیوں نے اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب سواروں کی صفیں قائم کی تھیں جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھے۔