الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تمہارے قبیلہ کا آدمی ہوتا تو تم اس کی جان کے خواہاں نہ ہوتے۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ " خدا کی قسم میرا باپ خطاب اسلام لاتا تو مجھ کو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس وقت ہوئی تھی۔ جب آپ اسلام لائے تھے۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سفارش قبول کی۔ اور ابو سفیان کو امن دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بڑے جاہ و جلال سے مکہ میں داخل ہوئے اور درِ کعبہ پر کھڑے ہو کر نہایت فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ جو بعید تاریخوں میں منقول ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لئے تشریف فرما ہوئے۔ لوگ جوق در جوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے قریب لیکن کس قدر نیچے بیٹھے تھے۔ جب عورتوں کی باری آئی تو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بیگانہ عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ تم ان سے بیعت لو، چنانچہ عورتوں نے انہی کے ہاتھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی۔ غزوۂ حنین اسی سال ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو (حنین، عرفات کے پیچھے ایک وادی کا نام ہے جو مکہ معظمہ سے نو دس میل ہے ) غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے۔ ہوازن عرب کا مشہور اور معزز قبیلہ تھا۔ یہ لوگ ابتداء سے اسلام کی ترقی کو رقابت کی نگاہ سے دیکھتے آئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب فتح مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو ان لوگوں کو گمان ہوا کہ ہم پر حملہ کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ اسی وقت جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور جب یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ پہنچے تو مکہ پر حملہ کے لیے بڑے ساز و سامان سے روانہ ہو کر حنین میں ڈیرے ڈالے (تاریخ طبری)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خبر سنی تو بارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مکہ معظمہ سے روانہ ہوئے۔ حنین میں دونوں فوجیں صف آراء ہوئیں۔ مسلمانوں نے پہلے حملہ میں ہوازن کو (صحیح مسلم غزوہ حنین) بھگا دیا۔ لیکن مال غنیمت کے لوٹنے میں مصروف ہوئے تو ہوازن نے حملہ کیا۔ اور اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ اور بارہ ہزار آدمیوں سے معدودے چند کے سوا باقی سب بھاگ نکلے۔ اس معرکہ میں جو صحابہ ثابت قدم رہے ان کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے۔ اور ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے۔ محمد بن اسحاق نے جو امام بخاری کے شیوخ حدیث میں داخل ہیں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے امام مانے جاتے ہیں۔ کتاب السغازی میں لکھا ہے کہ " وبا و پیغمبر چند تن از مہاجرین و انصار و اہل بیعت بازماند۔ ۔ ۔ وند مثل ابو بکر و علی و عمر و عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم (ابن اسحاق کی اصل کتاب میں نے دیکھی، لیکن اس کا ایک نہایت قدیم ترجمہ فارسی زبان میں میری نظر سے گزرا ہے اور عبارت منقولہ اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ ترجمہ 662 عیسوی میں سعدان زندگی کی حکم سے کیا گیا تھا۔ اور بس ایک نہایت قدیم نسخہ الہ آباد کے