الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کے بعد تنخواہوں کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ چونکہ وہ فوج کو زراعت، تجارت اور اس قسم کے تمام اشغال سے بزور باز رکھتے تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ ان کی تمام ضروریات کی کفالت کی جائے۔ اس لحاظ سے تنخواہوں میں کافی اضافہ کیا۔ ادنیٰ سے ادنیٰ شرح جو 200 سالانہ تھی 300 کر دی۔ افسروں کی تنخواہ سات ہزار سے لے کر دس ہزار تک بڑھا دی۔ بچوں کی تنخواہ دودھ چھوڑنے کے بعد سے مقرر ہوتی تھی۔ اب حکم دے دیا کہ پیدا ہونے کے دن سے مقرر کر دی جائے۔ رسد کا انتظام رسد کا بندوبست پہلے صرف اس قدر تھا کہ فوجیں مثلاً قادسیہ میں پہنچیں تو آس پاس کے دیہات پر حملہ کر کے جنس اور غلہ لوٹ لائیں۔ البتہ گوشت کا بندوبست دارالخلافہ سے تھا۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ سے بھیجا کرتے تھے (فتوح البلدان صفحہ 256، اصل عبارت یہ ہے فاذا احتا جوا الی العلف والطعام اخرجوا۔ حلولاً فی البر فاغارت علی اسفل الفرات و کان عمر یبعث الیھم من المدینہ الغنم والجرز)۔ پھر یہ انتظام ہوا کہ مفتوح قوموں سے جزیہ کے ساتھ فی کس 25 اثار غلہ لیا جاتا تھا۔ مصر میں غلہ کے ساتھ روغن زیتون، شہد اور سرکہ بھی وصول کیا جاتا تھا جو سپاہیوں کے سالن کا کام دیتا تھا۔ جزیرہ میں بھی یہی انتظام تھا۔ لیکن اس میں رعایا کو زحمت ہوتی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آخر اس کے بجائے نقدی مقرر کر دی (فتوح البلدان صفحہ 178 – 216)۔ جس کو رعایا نے نہایت خوشی سے قبول کیا۔ رسد کا مستقل محکمہ رفتہ رفتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسد کا ایک مستقل محکمہ قائم کیا جس کا نام اہراء تھا (تاریخ طبری صفحہ 265۔ اہرا کے معنی اور مفہوم کے لئے دیکھو لسان العرب اور فتوح البلدان صفحہ 20۔ چنانچہ شام میں عمر بن عتبہ اس محکمے کے افسر مقرر ہوئے۔ اہراء ہری کی جمع ہے۔ ہری ایک یونانی لفظ ہے۔ جس کے معنی گودام کے ہیں۔ چونکہ رسد کے یکجا جمع ہونے اور وہاں سے تقسیم ہونے کا یہ طریقہ یونانیوں سے لیا گیا تھا اس لئے نام میں بھی وہی یونانی لفظ قائم رہا۔ تمام جنس اور غلہ ایک وسیع گودام میں جمع ہوتا تھا۔ اور مہینے کی پہلی تاریخ فی سپاہی 1 من اثار کے حساب سے تقسیم ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ فی کس 2 اثار روغن زیتون اور 2 اثار سرکہ بھی ملتا تھا۔ اس کے بعد اور بھی ترقی ہوئی یعنی خشک اجناس کی بجائے پکا پکایا کھانا ملتا تھا۔ خوراک، کپڑا اور بھتہ