الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱ – احادیث نبوی کو بالفاظہا نقل کر کے اضلاع کے حکام کے پاس بھیجتے تھے جس سے ان کی عام اشاعت ہو جاتی تھی۔ یہ حدیثیں اکثر مسائل اور احکام کے متعلق ہوتی تھیں۔ 2 – صحابہ میں جو لوگ فن حدیث کے ارکان تھے۔ ان کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم کے لئے بھیجا۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں چنانچہ فاروق اعظم عبد اللہ بن مسعود رلبا جمعے بکوفہ فرستاد، معقل بن یسار و عبد اللہ بن معقل و عمران بن حصین رابہ بصرہ، عبادہ بن صامت و ابو دردا را شام معاویہ بن ابی سفیان کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ از حدیث ایشان تجاوز نکند (ازالۃ اخفاء صفحہ 6 حصہ دوم)۔ ایک دقیق نکتہ اس موقع پر ایک دقیق نکتہ خیال رکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ ہے کہ عام خیال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کی اشاعت میں بہت کچھ اہتمام کیا لیکن خود بہت کم حدیثیں روایت کیں۔ چنانچہ کل وہ مرفوع احادیث۔ ۔ ۔ ۔ جو ان سے بروایت صحیح مروی ہین ستر سے زیادہ نہیں۔ یہ خیال بظاہر صحیح ہے۔ لیکن واقع میں یہاں ایک غلط فہمی ہے۔ محدثین کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ صحابی جب کوئی ایسا مسئلہ بیان کرے جس میں رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں تو گو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نہ لے لیکن مطلب یہی ہو گا کہ اس نے رسول اللہ سے سنا ہے اور واقع میں یہ اصول بالکل عقل کے مطابق ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثلاً تمام ممالک میں لگھ بھیجا کہ زکوٰۃ فلاں فلاں چیزوں پر فرض ہے اور اس حساب سے فرض ہے۔ تو اس احتمال کا محل نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود شارع ہیں اور اپنی طرف سے احکام صادر کرتے ہیں۔ لامحالہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے زکوٰۃ کے متعلق احکام صادر فرمائے تھے ، زیادہ سے زیادہ اس احتمال کا موقع باقی رہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کا مطلب صحیح نہیں سمجھا اور اس لئے ممکن کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقدار کی تعداد کو فرض نہ کیا ہو بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو اپنی فہم کے مطابق فرض سمجھا ہے لیکن یہ احتمال خود ان احادیث میں بھی قائم رہتا ہے جن میں صحابی نے علانیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام لیا ہو۔