الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہشام بن عبد الملک نے جب بڑے اہتمام سے تمام ملک کی پیمائش کرائی جو تین کروڑ فدان ٹھہری تو 30 لاکھ سے چالیس لاکھ ہو گئے۔ البتہ حضرت عثمان کے زمانے میں عبد اللہ بن سعد گورنر مصر نے ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار وصول کئے تھے لیکن جب حضرت عثمان نے فخریہ عمرو بن العاص سے کہا کہ اب تو اونٹنی نے زیادہ دودھ دیا ہے (دیکھو مقریزی صفحہ 18 جلد اول)۔ تو عمرو بن العاص نے آزادانہ کہا کہ " ہاں لیکن بچہ بھوکا رہا۔ " امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ ہر قسم کی دنیاوی ترقی میں یادگار ہے۔ ان کے عہد میں مصر کے خراج کی تعداد 90 لاکھ دینار تھی۔ فاطمئین (معجم البلدان ذکر مصر۔ مقریزی جلد اول صفحہ 74 تا 75) کے عہد میں خلیفہ المعز بدین اللہ کے گورنر نے باوجود یہ کہ لگان کی شرح دوگنی کر دی، تاہم 32 لاکھ دینار سے زیادہ وصول نہ ہوئے۔ (کتاب الخراج صفحہ 28 ابن حوقل ذکر مصر)۔ شام شام میں اسلام کے عہد تک وہ قانون جاری تھا جو ایک یونانی بادشاہ نے اپنے تمام ممالک مقبوضہ میں قائم کیا تھا۔ اس نے پیداوار کے اختلافات کے لحاظ سے زمین کے مختلف مدارج قرار دیئے تھے۔ اور ہر قسم کی زمین پر جداگانہ شرح کے لگان مقرر کئے تھے۔ یہ قانون چھٹی صدی عیسوی کے آغاز میں یونانی زبان سے شامی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اور اسلام کی فتوحات تک وہی ان تمام ممالک میں جاری تھا۔ (دیکھو پروفیسر برخیم فرانسیسی کی کتاب مسلمانوں کے قانون مال گزاری پر)۔ قرائن اور قیاسات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصر کی طرح یہاں بھی وہی قدیم قانون جاری رہنے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں شام سے جو خراج وصول ہوتا تھا اس کی کل تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار یعنی 5 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی۔ عراق، مصر، شام کے سوا اور ممالک مفتوحہ یعنی فارس، کرمان، آرمینیہ وغیرہ کے بندوبست اور تشخیص خراج کے حالات ہم بہت کم معلوم کر سکے۔ مؤرخین ان ملکوں کے حالات فتح میں صرف اس قدر لکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں پر جزیہ اور زمین پر خراج مقرر کیا گیا۔ کہیں کہیں کسی خاص رقم پر معاہدہ ہو گیا ہے تو اس کی تعداد لکھ دی ہے۔ باقی اور قسم کی تفصیل کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ اور چونکہ اس قسم کی جزئی تفصیلوں سے کچھ بڑے نتائج متعلق نہیں اس لیے ہم بھی اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے۔ قانون مال گزاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصلاحات