الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
متفرق انتظامات حکومت کے متعلق بڑے بڑے انتظامی صیغوں کا حال اوپر گزر چکا ہے لیکن ان کے علاوہ اور بہت سے جزئیات ہیں جن کے لئے جدا جدا عنوان قائم نہیں کئے جا سکتے تھے۔ اس لئے ان کو یکجا لکھنا زیادہ موزوں ہو گا۔ ان میں سے ایک دفتر اور کاغذات کی ترتیب اور اس کی ضرورت سے سن اور سال قائم کرنا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے ان چیزوں کا وجود نہ تھا۔ عام واقعات کے یاد رکھنے کے لئے جاہلیت میں بعض واقعات سے سنہ کا حساب کرتے تھے۔ مثلاً ایک زمانے تک کعب بن لوی کی وفات سے سال کا شمار ہوتا تھا۔ پھر عام الفیل قائم ہوا۔ یعنی سال ابراہۃ الاشرم نے کعبہ پر حملہ کیا تھا پھر عام الفجار اور اس کے بعد اور مختلف سنہ قائم ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مستقل سنہ (سنہ ہجری) قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ سنہ ہجری مقرر کرنا اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ سنہ 21 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک چک پیش ہوئی، صرف شعبان کا لفظ لکھا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ کیونکر معلوم ہو گزشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ۔ اسی وقت مجلس شوریٰ منعقد کی۔ تمام بڑے بڑے صحابہ جمع ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیا گیا، اکثر نے رائے دی کہ فارسیوں کی تقلید کی جائے۔ چنانچہ ہرمزان جو خورستان کا بادشاہ تھا اور اسلام لا کر مدینہ منورہ میں مقیم تھا طلب کیا گیا۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاں جو حساب ہے وہ اس کو ماہ روز کہتے ہیں۔ اور اس میں تاریخ اور مہینہ دونوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ سنہ کی ابتداء کب سے قرار دی جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت نبوی کی رائے دی اور اسی پر سب کا اتفاق ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ربیع الاول میں ہجرت فرمائی تھی۔ یعنی سال میں دو مہینے آٹھ دن گزر چکے تھے اس لحاظ سے ربیع الاول سے آغاز ہونا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے اس لیے دو مہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر سال شروع سے سنہ قائم کیا۔ (مقریرزی جلد اول صفحہ 284)۔ عرب میں اگرچہ قدیم سے لکھنے پڑھنے کا فی الجملہ رواج تھا۔ چنانچہ جب اسلام کا زمانہ آیا تو صرف ایک قریش قبیلہ میں 17 شخص لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ لیکن حساب کتاب سے عموماً لوگ بے بہرہ تھے۔ یہاں تک کہ جب سنہ 14 ہجری میں اپلہ فتح ہوا تو تمام فوج میں ایک شخص نہ تھا جسے حساب کتاب آتا ہو اور جو مال غنیمت کو قاعدے سے تقسیم کر سکتا۔ مجبوراً لوگوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے یعنی زیاد بن ابی سفیان کی طرف رجوع کیا۔ اور اس صلے میں اس کی تنخواہ دو درہم یومیہ مقرر کی۔ یا تو یہ حالت تھی یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت نہایت خوبی سے ہر قسم کے مفصل کاغذات اور نقشے تیار ہوئے۔