الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مشکل مسائل قلمبند کرنا جو مسائل زیادہ مشکل ہوتے ان کو یادداشت کے طور پر لکھ لیتے اور ہمیشہ ان پر غور کیا کرتے۔ وقتاً فوقتاً ان کے متعلق جو رائے قائم ہوتی اس کو قلمبند اور زیادہ غور و فکر سے اس میں محو و اثبات کیا کرتے۔ پھوپھی کی میراث کی نسبت جو یادداشت لکھی تھی اور آخر میں اس کو محو کر دیا اس کا حال امام محمد نے مؤطا میں لکھا ہے (مؤطا امام محمد صفحہ 314)۔ قسطلانی نے شرح بخاری میں معتمد حوالہ سے نقل کیا ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سو مختلف رائے قائم کیں۔ دقیق مسائل میں وقتاً فوقتاً خوض کرتے رہنا بعض مسائل کے متعلق ان کو مرتے دم تک کاوش رہی اور کوئی قطعی رائے نہ قائم کر سکے۔ مسند دارمی میں ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق انہوں نے ایک تحریر لکھی تھی۔ لیکن مرنے سے قبل اس کو منگوا کر مٹا دیا اور کہا کہ آپ لوگ خود اس کا فیصلہ کیجیئے گا۔ اسی کتاب میں یہ روایت بھی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہوئے تو صحابہ کو بلا کر کہا کہ میں نے دادا کی میراث کے متعلق رائے قائم کی تھی۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو اس کو قبول کریں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ کی رائے ہم قبول کر لیں تب بھی بہتر ہے لیکن ابو بکر کی رائے مانیں تو وہ بڑے صائب الرائے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش رسول اللہ تین مسئلوں کے متعلق کوئی تحریر قلمبند فرما جاتے۔ کلالہ، دادا کی میراث، ربط کی بعض اقسام مسائل فقہیہ کے متعلق ان کو جو کد و کاوش رہتی تھی اس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل کی مثالیں کافی ہوں گی۔ ورثا کے بیان میں خدا نے ایک قسم کے وارث کا کلالہ سے تعبیر کیا ہے لیکن چونکہ قرآن مجید میں اس کی تعریف مفصل مذکور نہیں اس لئے صحابہ میں اختلاف تھا کلالہ میں کون کوں ورثا میں داخل ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے چند بار دریافت کیا، اس پر تسلی نہیں ہوئی تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایک یادداشت لکھ کر دی کہ رسول اللہ سے دریافت کرنا پھر اپنی خلافت کے زمانے میں تمام صحابہ کو جمع کر کے اس مسئلہ کو پیش کیا۔ لیکن ان تمام باتوں پر بھی ان کو کافی تسلی نہیں ہوئی اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر تین چیزوں کی حقیقت بتا جاتے تو مجھ کو دنیا اور مافیہا سے زیادہ عزیز ہوتی۔ خلافت، کلالہ، ربط، چنانچہ ان تمام واقعات کو محدث عماد الدین ابن کثیر نے صحیح حدیثوں کے حوالے سے اپنی تفسیر قرآن میں نقل کیا ہے۔