الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذمی رعایا کے حقوق (ذمی سے وہ قومیں مراد ہیں جو مسلمان نہ تھیں لیکن ممالک اسلام میں سکونت رکھتی تھیں) پارسیوں اور عیسائیوں کا برتاؤ غیر قوموں کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمی رعایا کو جو حقوق دیئے تھے اس کا مقابلہ اگر اس زمانے کی دوسرے سلطنتوں سے کیا جائے تو کسی طرح کا تناسب نہ ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمسایہ میں جو سلطنتیں تھیں وہ روم و فارس تھیں۔ ان دونوں سلطنتوں میں غیر قوموں کے حقوق غلاموں سے بھی بدتر تھے۔ شام کے عیسائی باوجودیکہ رومیوں کے ہم مذہب تھے۔ تاہم ان کو اپنی مقبوضہ زمینوں پر کسی قسم کا مالکانہ حق حاصل نہیں تھا بلکہ وہ خود تھی ایک قسم کی جائیداد خیال کئے جاتے تھے۔ چنانچہ زمین کے انتقال کے ساتھ وہ بھی منتقل ہو جاتے تھے۔ اور مالک سابق کو ان پر جو مالکانہ اختیارات حاصل تھے وہی قابض حال کو حاصل ہو جاتے تھے۔ یہودیوں کا حال اور بھی بدتر تھا بلکہ اس قابل نہ تھا کہ کسی حیثیت سے ان پر رعایا کا اطلاق ہو سکتا۔ کیونکہ رعایا آخر کار کچھ نہ کچھ حق رکھتی ہے۔ اور وہ حق کے نام سے بھی محروم تھے۔ فارو میں جو عیسائی تھے انکی حالت اور بھی زیادہ رحم کے قابل تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان ممالک کو زیر نگیں کیا تو دفعتہً وہ حالت بدل گئی۔ جو حقوق ان کو دیئے گئے ، ان کے لحاظ سے گویا وہ رعایا نہیں رہے بلکہ اس قسم کا تعلق رہ گیا جیسا کہ دو برابر کے معاہدہ کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ مختلف ممالک کی فتح کے وقت جو معاہدے لکھے گئے ہم ان کو اس مقام پر بعینہ نقل کرتے ہیں جس سے اس دعویٰ کی تصدیق ہو گی۔ اور ساتھ ہی اس بات کے موازنہ کا موقع ملے گا کہ یورپ نے اس قسم کے حقوق کبھی غیر قوم کو نہیں دیئے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخوں میں جو معاہدے منقول ہیں ان میں بعض مفصل باقی مجمعل ہیں۔ کیونکہ مفصل شرائط کا بار بار اعادہ کرنا تطویل عمل کا باعث تھا۔ اس لیے اکثر معاہدوں میں کسی مفصل معاہدے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بیت المقدس کا معاہدہ جو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں اور ان کے الفاظ میں لکھا گیا حسب ذیل ہے۔ بیت المقدس کا معاہدہ