الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور عہد نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوائے جا چکے تھے کہ غش آ گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیئے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا لکھا ہے مجھ کو پڑھ کر سناؤ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور " کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے۔ " عہد نامہ لکھا جا چکا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو دیا کہ مجمع عام میں سنائے پھر خود بالا خانے پر جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ بلکہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا۔ کیا تم لوگ اس پر راضی ہو؟ سب نے سمعنا و اطعنا کہا۔ پھر حضرت عمر رضیا للہ تعالیٰ عنہ کو نہایت مؤثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔ خلافت اور فتوحات حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں مرتدین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ 13 ہجری (633 عیسوی) میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کا انجام دینا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس و شام سے کیا تعلقات تھے۔ عرب کا نہایت نہایت قدیم خاندان جو " عربِ بایدہ " کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کے حالات نامعلوم ہیں تاہم اس قدر ہے کہ عاد اور عمالقہ نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عرب عرباء جو یمن کے فرمانروا تھے ان کی حکومت ایک زمانہ میں بہت زور پکڑ گئی تھی۔ یہاں تک کہ چند بار عراق پر قابض ہو گئے۔ اور سلطنت فارس کے ساتھ ان کو ہمسری کا دعویٰ رہا۔ رفتہ رفتہ عرب خود حکومت فارس کے علاقہ میں آباد ہونے شروع ہو گئے۔ بخت نصر نے جو بابل کا بادشاہ تھا۔ اور بیت المقدس کی بربادی نے ان کے نام کو شہرت دے دی ہے۔ جب عرب پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلے اس کے مطیع ہو گئے۔ اور اس تعلق سے عراق میں جا کر آباد ہو گئے۔ رفتہ رفتہ معد بن عدنان کی بہت سی نسلیں ان مقامات میں آباد ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ ریاست کی بنیاد پڑ گئی۔ اور چونکہ اس زمانے میں سلطنت فارس میں طوائف الملوکی قائم ہو گئی تھی، عربوں نے مستقل حکومت قائم کر لی۔ جس کا پہلا فرمانروا مالک بن فہم عدنانی تھا۔ اس خاندان میں جزیمتہ الابرش کی سلطنت نہایت وسیع ہوئی۔ اس کا بھانجا عمرو بن عدی جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے حیرہ کو دارالسلطنت قرار دیا۔ اور عراق کا بادشاہ کہلایا۔ اس