الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بالکل آشنا نہ تھے۔ تیر تھے لیکن ایسے چھوٹے اور کم حیثیت کہ قادسیہ کے معرکے میں ایرانیوں نے جب پہلے پہل ان کو دیکھا تو سمجھا کہ تکلے ہیں۔ فتوحات کے اصلی اسباب ہمارے نزدیک اس سوال کا اصلی جواب صرف اس قدر ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت جو جوش، عزم، استقلال، بلند حوصلگی، دلیری پیدا ہو گئی تھی اور جس کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا۔ روم اور فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانے بھی اس کی ٹکر نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ البتہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی مل گئی تھیں۔ جنہوں نے فتوحات میں نہیں بلکہ قیام حکومت میں مدد دی۔ اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانت داری تھی۔ جو ملک فتح ہوتا تھا وہاں کے لوگ مسلمانوں کی راست بازی کے اس قدر گرویدہ ہو جاتے تھے کہ باوجود اختلاف مذہب کے ان کی سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے۔ یرموک کے معرکہ میں مسلمان جب شام کے اضلاع سے نکلے تو تمام عیسائی رعایا نے پکارا کہ " خدا تم کو پھر اس ملک میں لائے۔ " اور یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا کہ " ہمارے جیتے جی قیصر اب یہاں نہیں آ سکتا۔ " رومیوں کی حکومت جو شام و مصر میں تھی وہ بالکل جابرانہ تھی۔ اس لیے رومیوں نے جو مقابلہ کیا وہ سلطنت اور فوج کے زور سے کیا۔ رعایا ان کے ساتھ نہ تھی۔ مسلمانوں نے جب سلطنت کا زور توڑا تو آگے مطلع صاف تھا۔ یعنی رعایا کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہوئی، البتہ ایران کی حالت اس سے مختلف تھی۔ وہاں سلطنت کے نیچے بہت سے بڑے بڑے رئیس تھے جو بڑے بڑے اضلاع اور صوبوں کے مالک تھے۔ وہ سلطنت کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ذاتی حکومت کے لیے لڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پائے تخت کے فتح کر لینے پر بھی فارس میں ہر قدم پر مسلمانوں کو مزاحمتیں پیش آئیں لیکن عام رعایا وہاں بھی مسلمانوں کی گرویدہ ہوتی جاتی تھی۔ اور اس لیے فتح کے بعد بقائے حکومت میں ان سے بہت مدد ملتی تھی۔ ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا اول حملہ شام و عراق پر ہوا۔ اور دونوں مقامات میں کثرت سے عرب آباد تھے۔ شام میں دمشق کا حاکم غسانی خاندان کا تھا جو برائے نام قیصر کا محکوم تھا۔ عراق میں نخمی خاندان والے دراصل ملک کے مالک تھے۔ گو کسریٰ کو خراج کے طور پر کچھ دیتے تھے ، ان عربوں نے اگرچہ اس وجہ سے کہ عیسائی ہو گئے تھے۔ اول اول مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن قومی اتحاد کا جذبہ رائیگاں نہیں جا سکتا تھا۔ عراق کے بڑے بڑے رئیس بہت جلد مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو جانے پر وہ مسلمانوں کے دست و بازو بن گئے۔ (آگے چل کر ایک موقع پر ہم نے ان کے نام بھی تفصیل سے لکھے ہیں)۔ شام میں بھی آخر عربوں نے اسلام قبول کر لیا اور رومیوں کی حکومت سے آزاد ہو گئے۔ سکندر اور چنگیز وغیرہ کا نام لینا یہاں