الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کمیشن بعض اوقات کمیشن کے طور پر چند آدمی تحقیقات کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ چنانچہ اس قسم کے متعدد واقعات تاریخوں میں مذکور ہیں۔ بعض اوقات ابتداً عامل کو مدینہ بلا کر براہ راست تحقیقات کرتے تھے۔ اور اکثر یہ اس وقت ہوتا تھا جب کہ عامل صوبہ کا حاکم یا معزز افسر ہوتا تھا۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بصرہ کے گورنر تھے ، ان کی نسبت جب شکایت گزری تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مستغیث کا بیان خود اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا۔ اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے حضور میں بلوا کر تحقیقات کیں۔ الزامات یہ تھے : 1 – ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسیران جنگ میں سے 60 رئیس زادے چھانٹ کر اپنے لیے رکھے ہیں۔ 2 – ان کی ایک لونڈی ہے جس کو دونوں وقت نہایت عمدہ غذا بہم پہنچائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی غذا ایک عام مسلمان کو میسر نہیں آ سکتی۔ 3 – کاروبار حکومت زیاد بن سمیعہ کو سپرد کر رکھا ہے اور وہی سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ تحقیقات سے پہلا الزام غلط ثابت ہوا۔ تیسرے الزام کا ابو موسیٰ نے یہ جواب دیا کہ زیاد سیاست و تدبیر کا آدمی ہے۔ اس لیے میں نے اس کو اپنا مشیر بنا رکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیاد کو طلب کیا اور امتحان لیا تو حقیقت میں قابل آدمی تھا۔ اس لیے خود بصرہ کے حکام کو ہدایت کی کہ زیاد کو مشیر کار بنائیں۔ دوسرا الزام پیش ہوا تو ابو موسیٰ کچھ جواب نہ دے سکے۔ چنانچہ لونڈی ان سے چھین لی گئی۔ (طبری صفحہ 2710 تا 2712)۔ عاملوں کی خطاؤں پر سخت گرفت کی جاتی تھی۔ خصوصاً ان باتوں پر جن سے ترفع اور امتیاز یا نمود و فخر ثابت ہوتا تھا۔ سخت مواخذہ کیا جاتا تھا۔ جس عامل کی نسبت ثابت ہوتا تھا کہ بیمار کی عیادت نہیں کرتا یا کمزور اس کے دربار میں بار نہیں پاتا تو فوراً موقوف کر دیا جاتا تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 66)۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار میں پھر رہے تھے۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ " عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا عاملوں کے لیے چند قواعد کے مقرر کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔ تم کو یہ خبر ہے کہ عیاض بن غنم جو مصر کا عامل ہے باریک کپڑے پہنتا ہے۔ اور اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محمد بن