الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان جنگ سے نہیں ہٹے۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فوراً خدمت میں پہنچے۔ طبری اور سیرت ہشام میں ہے۔ فلما عرف المسلمون رسول اللہ نھضوا بہ و نھض نحو الشعب معہ علی بن ابی طالب و ابوبکر بن ابی قحافہ و عمر بن الخطاب و طلحہ بن عبید اللہ و الزبیر بن العوم و الحارث بن صمۃ۔ " پھر جب مسلمانوں نے رسول اللہ کو دیکھا تو آنحضرت کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام اور حارث بن صمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے۔ " علامہ بلاذری صرف ایک مؤرخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں یہ لکھا ہے : و کان ممن انکشف یوم احد فغفرلہ "یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے۔ لیکن خدا نے ان کو معاف کر دیا۔ " علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کئے تو ایک شخص کے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا اس سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبد اللہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی میں ثابت قدم رہا تھا۔ اور عبد اللہ کا باپ (یعنی حضرت عمر) نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے درایۃً غلط ہے ، کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا۔ جس کو کوئی شخص علانیہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے ، علامہ موصوف نے جس رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ان میں عباس بن عبد اللہ الباکسائے اور فیض بن اسحاق ہیں اور دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ اور تمام روایتیں اس کے خلاف ہیں۔ اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ خالد ایک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بڑھے ، رسول اللہ اس وقت تیس (30) صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ خالد کو آتا دیکھ کر فرمایا کہ خدایا۔ یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ