الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جزیہ کی بحث جزیہ کا موضوع اور مقصد، اگرچہ شروع اسلام ہی میں ظاہر کر دیا گیا تھا کہ وہ حفاظت کا معاوضہ ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں یہ مسئلہ ایسا صاف ہو گیا ہے کہ احتمال کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ اولاً تو انہوں نے نوشیروان کی طرح جزیہ کی مختلف شرحیں قائم کیں اور اس طریقہ سے گویا صاف بتا دیا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ وہی نوشیروانی محصول ہے۔ اس کے علاوہ موقع بہ موقع عملی طور پر اس بات کو ظاہر کیا کہ وہ صرف حفاظت کا معاوضہ ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں تم پڑھ آئے ہو کہ جب یرموک کے پرخطر معرکہ کے پیش آنے کی وجہ سے اسلامی فوجیں شام کے مغربی حصوں سے ہٹ آئیں۔ اور ان کو یقین ہو گیا کہ جن شہروں سے وہ جزیہ وصول کر چکے تھے یعنی حمص و دمشق وغیرہ، وہاں کے باشندوں کی حفاظت کا اب وہ ذمہ نہیں اٹھا سکتے تو جزیہ سے جس قدر رقم وصول ہوئی تھی سب واپس کر دی اور صاف کہہ دیا کہ اس وقت ہم تمہارے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جزیہ لینے کا بھی ہم کو کوئی حق نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ قطعی شہادت یہ ہے کہ جن لوگوں سے کبھی کسی قسم کی فوجی خدمت لی گئی ان کو باوجود ان کے مذہب پر قائم رہنے کے جزیہ معاف کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود سنہ 17 ہجری میں عراق کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ۔ یستعینوا بمن احتاجوا الیہ من الا ساورۃ و یرفعوا عنھم الجزاء (طبری صفحہ 2497)۔ "یعنی فوجی سواروں میں سے جس سے مدد لینے کی ضرورت ہو اس سے مدد لے لو اور ان کا جزیہ چھوڑ دو۔ " یہاں تک کہ اگر کسی قوم نے صرف ایک دفعہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی تو اس سال کا جزیہ اس کے لیے معاف کر دیا گیا۔ 22 ہجری میں جب آذربائیجان فتح ہوا تو اہل شہر کو یہ فرمان لکھ دیا گیا۔ و من حشر منھم فی سنۃ وضع عنہ جزاء تلک السنۃ "یعنی جو لوگ کسی سال فوج کے ساتھ کام دیں گے ، اس سال کا جزیہ ان سے نہیں لیا جائے گا۔ " اسی سال آرمینیہ کے رئیس شہزبزاز سے جو معاہدہ ہوا اس میں یہ الفاظ تھے : و علی اھل آرمینیۃ ان ینفروا لکل غارۃ و ینفذو الکل امر ناب اولم ینب راہ الو الی صلاحا علی ان توضع الجزاء (طبری صفحہ 265)۔ اسی سنہ میں جرجان فتح ہوا اور فرمان میں یہ عبارت لکھی گئی :