الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اکثر شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔ جہاں مسافروں کو بیت المال کی طرف سے کھانا ملتا تھا۔ چنانچہ کوفہ کے مہمان خانے کا ذکر ہم کوفہ کی آبادی کے ذکر میں لکھ آئے ہیں۔ مدینہ منورہ میں جو لنگر خانہ تھا اکثر وہاں خود جا کر اپنے اہتمام سے کھانا کھلواتے تھے۔ لا وارث بچے اولاد لقطہ یعنی گمنام بچے جن کو مائیں شاہراہ وغیرہ پر ڈال جاتی تھیں، ان کے لئے سن 18 ہجری میں یہ انتظام کیا کہ جہاں اس قسم کا کوئی بچہ ملے اس کے دودھ پلانے ا ور دیگر مصارف کا انتظام بیت المال سے کیا جائے۔ (بلاذری صفحہ 452 و یعقوبی جلد 7 صفحہ 71)۔ چنانچہ ان مصارف کے لئے اول سو درہم سالانہ مقرر ہوتے تھے پھر سال بہ سال ترقی ہو جاتی تھی۔ یتیموں کی خبر گیری یتیموں کی پرورش اگر ان کی جائیداد ہوتی تھی تو اس کی حفاظت کا نہایت اہتمام کرتے تھے اور اکثر تجارت کے ذریعے اسے ترقی دیتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ حکم بن ابی العاص سے کہا کہ میرے پاس یتیموں کا جو مال جمع ہے وہ زکوٰۃ نکالنے کی وجہ سے گھٹتا جا رہا ہے۔ تم اس کو تجارت میں لگاؤ اور جو نفع ہو واپس کر دو۔ چنانچہ دس ہزار کی رقم حوالہ کی اور وہ بڑھتے بڑھتے لاکھ تک پہنچ گئی۔ قحط کا انتظام 18 ہجری میں جب عرب میں قحط پڑا تو عجب سرگرمی ظاہر کی۔ اول بیت المال کا تمام نقد و غلہ صرف کیا۔ پھر تمام صوبوں کے افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ نے چار ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے بھیجے۔ عمرو بن العاص نے بحر قلزم کی راہ سے بیس جہاز روانہ کئے جن میں ایک ایک میں تین تین ہزار اردب غلہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان جہازوں کے ملاحظہ کے لئے خود بندرگاہ تک گئے۔ جس کا نام جار تھا، اور مدینہ منورہ سے تین منزل ہے۔ بندرگاہ میں دو بڑے بڑے مکان بنوائے اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ قحط زدوں کا نقشہ بنائیں۔ چنانچہ بقید نام اور مقدار غلہ رجسٹر تیار ہوا۔ ہر شخص کو چک تقسیم کی گئی۔ جس کے مطابق اس کو روزانہ غلہ ملتا تھا۔ چک پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ (یہ تفصیل یعقوبی صفحہ 77 میں ہے۔ اخیر کے فقرے یہ ہیں لم امر زید بن ثابت ان یکتب الناس علی منازلھم و امر ان یکتب مکا کامن قواطیس لم یختم اسا فلھا فکان اول من صبک و ختم اسفل الصکاک۔ اردب کم و بیش 2 من کا