الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نتائج شخصی سلطنت کے لوازم ہیں۔ اور کبھی اس سے جدا نہیں ہو سکتے۔ بر خلاف اس کے جمہوری سلطنت میں اس کے برعکس نتائج ہوں گے۔ اس بناء پر جس سلطنت کی نسبت جمہوری یا شخصی حکومت کا حیثیت سے بحث ہو، اس کی نوعیت کا اندازہ نتائج سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ جمہوریت کا طریق عرب کا فطری مذاق تھا اور اس لیے عرب میں جو حکومت قائم ہوتی وہ خواہ مخواہ جمہوری ہوتی۔ عرب میں مدت سے تین وسیع حکومتیں تھیں لخمی، حمیری، غسانی لیکن یہ سب شخصی تھیں۔ قبائل کے سردار جمہوری اصولوں پر انتخاب کئے جاتے تھے ، لیکن ان کو کسی قسم کی ملکی حکومت حاصل نہ تھی بلکہ ان کی حیثیت سپہ سالاروں یا قاضیوں کی ہوتی تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت نے بھی اس بحث کا کچھ فیصلہ نہیں کیا۔ گو ان کا انتخاب کثرت رائے پر ہوا تھا۔ لیکن وہ ایک فوری کاروائی تھی چنانچہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : " فلا یغتون امر ان یقول انما کانت بیعۃ ابی بکر فلتۃ و تمت الا و انھا قد کانت کذالک لکن اللہ و فی شرھا۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گرد و پیش جو سلطنتیں تھیں وہ بھی جمہوری نہ تھیں۔ ایران میں تو سرے سے کبھی یہ مذاق ہی نہیں پیدا ہوا۔ روم البتہ کسی زمانے میں اس شرف سے ممتاز ہوا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے پہلے وہاں شخصی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو وہ بالکل ایک جابرانہ خود مختار سلطنت رہ گئی تھی۔ غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی مثال اور نمونے کے جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی اور اگرچہ وقت کے اقتضاء سے اس کے تمام اصول و فروع مرتب نہ ہو سکے تاہم جو چیزیں حکومت جمہوری کی روح ہیں سب وجود میں آ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں مجلس شوریٰ (کونسل) اس میں سب کا اصل الاصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھا۔ یعنی جب کوئی انتظام کا مسئلہ پیش آتا تھا تو ہمیشہ ارباب شوریٰ کی مجلس منعقد ہوتی تھی۔ اور کوئی امر بغیر مشورہ اور کثرت رائے کے عمل میں نہیں آ سکتا تھا۔ تمام جماعت اسلام میں اس وقت دو گروہ تھے جو کل قوم کے پیشوا تھے اور جن کو تمام عرب نے گویا اپنا قائم مقام تسلیم کر لیا تھا۔ یعنی مہاجرین و انصار۔