الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مذکور ہے (صحیح بخاری جلد دوم مطبوعہ احمدی میرٹھ صفحہ ۱۰۰۹)۔ اس میں سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ، انصار کے خیالات، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب، بیعت کی کیفیت، خلافت کو حقیقت کو اس خوبی اور عمدگی سے ادا کیا کہ اس سے بڑھ کر کرنا ممکن نہ تھا۔ اس تقریر کو پڑھ کر بالکل ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ اس وقت جو کچھ ہوا وہی ہونا چاہیے تھا اور وہی ہو سکتا تھا۔ جن مجمعوں میں غیر قومیں بھی شریک ہوتی تھیں ان میں ان کے خطبہ کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا جاتا تھا۔ چنانچہ دمشق میں بمقام جابیہ جو خطبہ دیا مترجم ساتھ کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی کرتا جاتا تھا۔ اگرچہ اکثر برمحل اور برجستہ خطبہ دیتے تھے۔ لیکن معرکے کے جو خطبے ہوتے تھے ، ان میں تیار ہو کر جاتے تھے۔ سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ میں خود ان کا بیان ہے کہ میں خوب تیار ہو کر گیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے اور خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھے تو دفعتاً رک گئے اور زبان نے یاری نہ دی۔ اس وقت یہ عذر کیا گیا کہ "ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم خطبہ کے لئے تیار ہو کر آتے تھے اور آئندہ سے میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ نکاح کا خطبہ اچھا نہیں دے سکتے تھے وہ اگرچہ ہر قسم کے مضامین پر خطبہ دے سکتے تھے ، لیکن ان کا خود بیان ہے کہ "نکاح کا خطبہ مجھ سے بن نہیں آتا۔ " عبد اللہ بن المقفع جو دولت عباسیہ کا مشہور ادیب اور فاضل تھا اس سے لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس معذوری کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا کہ نکاح کا خطبہ میں حاضرین میں سے ہر شخص برابری کا درجہ رکھتا ہے۔ خطیب کی کوئی ممتاز حیثیت نہیں ہوتی بخلاف اس کے عام خطبوں میں خطیب جب منبر پر چڑھتا ہے تو عام آدمی اس کو محکوم معلوم ہوتے ہیں اور اس وجہ سے خود بخود اس کی تقریر میں بلندی اور زور آ جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح میں موضوع سخن تنگ اور محدود ہوتا ہے اور ہر بار وہی ایک طرح کی معمولی باتیں کہنی پڑتی ہیں۔ پولیٹیکل خطبے