الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حصہ دوم علامہ شبلی نعمانی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم فتوحات پر ایک اجمالی نظر پہلے حصے میں تم فتوحات کی تفصیل پڑھ آئے ہو۔ اس سے تمہارے دل پر اس عہد کے مسلمانوں کے جوش، ہمت، عزم و استقلال کا قوی اثر پیدا ہوا ہو گا۔ لیکن اسلاف کی داستان سننے میں تم نے اس کی پروا نہ کی ہو گی کہ واقعات کو فلسفہ تاریخی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ لیکن ایک نکتہ سنج مؤرخ کے دل میں فوراً یہ سوالات پیدا ہوں گے کہ چند صحرا نشینوں نے کیونکر فارس و روم کا دفتر الٹ دیا! کیا یہ تاریخ عالم کا کوئی مستثنیٰ واقعہ ہے ؟ آخر اس کے اسباب کیا تھے۔ کیا ان واقعات کو سکندر و چنگیز کی فتوحات سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی؟ جو کچھ ہوا اس میں فرمانروائے خلافت کا کتنا حصہ تھا؟ ہم اس موقع پر انہی سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اجمال کے ساتھ پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ فتوحات فاروقی کی وسعت اور اس کے حدود اربعہ کیا تھے۔ فتوحات فاروقی کی وسعت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ 2251030/میل مربع یعنی مکہ سے شمال کی جانب 1036/ مشرق کی جانب 1087/ جنوب کی جانب 483/ میل تھا۔ مغرب کی جانب چونکہ صرف جدہ تک حد حکومت تھی اس لیے وہ قابل ذکر نہیں۔ اس میں شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عراق، عجم، آرمینیہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا حصہ آ جاتا ہے۔ شامل تھا، ایشیائے کوچک پر جس کو اہل عرب روم کہتے ہیں 20 ہجری میں حملہ ہوا تھا لیکن وہ