الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بالکل بے موقع ہے ، بے شبہ ان دونوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔ لیکن کیونکر؟ قہر، ظلم اور قتل عام کی بدولت چنگیز کا حال توسب کو معلوم ہے۔ سکندر وغیرہ کی فتوحات سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ جب اس نے شام کی طرف شہر صور کو فتح کیا تو چونکہ وہاں کے لوگ دیر تک جم کر لڑے تھے اس لیے قتل عام کا حکم دیا اور ایک ہزار شہریوں کے سر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکا دیئے۔ اس کے ساتھ 30 ہزار باشندوں کو لونڈی غلام بنا کر بیچ ڈالا۔ جو لوگ قدیم باشندے اور آزادی پسند تھے۔ ان میں ایک شخص کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ اسی طرح فارس میں اصطخر کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کر دیا۔ اسی طرح کی اور بھی بے رحمیاں اس کے کارناموں میں مذکور ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ظلم اور ستم سے سلطنت برباد ہو جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ ظلم کی بقا نہیں۔ چنانچہ سکندر اور چنگیز کی سلطنتیں بھی دیرپا نہ ہوئیں لیکن فوری فتوحات کے لیے اسی قسم کی سفاکیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کا ملک مرعوب ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ رعایا کا بڑا گروہ ہلاک ہو جاتا ہے ، اس لیے بغاوت و فساد کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ چنگیز، بخت نصر، تیمور، نادر شاہ جتنے بڑے بڑے فاتح گزرے ہیں سب کے سب سفاک بھی تھے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات میں کبھی سر مو قانون و انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ آدمیوں کا قتل عام ایک طرف، درختوں کے کاٹنے تک کی اجازت نہ تھی۔ بچوں اور بوڑھوں سے بالکل تعرض نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بجز عین معرکہ کارزار کے کوئی شخص قتل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دشمن سے کسی موقع پر بدعہدی یا فریب دہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ افسروں کو تاکیدی احکام دیئے جاتے تھے۔ فان قاتلو کم فلا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا ولیداً (کتاب الخراج صفحہ 130) "یعنی دشمن تم سے لڑائی کریں تو تم ان سے فریب نہ کرو۔ کسی کی ناک کان نہ کاٹو۔ کسے بچے کو قتل نہ کرو۔ " جو لوگ مطیع ہو جاتے تھے ان سے دوبارہ اقرار لے کر درگزر کی جاتی تھی، یہاں تک کہ جب عربسوس والے تین تین دفعہ متواتر اقرار کر کے پھر گئے ، تو صرف اس قدر کیا کہ ان کو وہاں سے جلا وطن کر دیا لیکن اس کے ساتھ ان کی کل جائیداد مقبوضہ کی قیمت ادا کر دی۔ خیبر کے یہودیوں کو سازش اور بغاوت کے جرم میں نکالا تو ان کی مقبوضہ ارضیات کا معاوضہ