الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فحل ذوقعدہ 14 ہجری (635 عیسوی) دمشق کی شکست نے رومیوں کو سخت برہم کر دیا اور وہ ہر طرف سے جمع ہر کو بڑے زور اور قوت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لئے آمادہ ہوئے۔ دمشق کی فتح کے بعد چونکہ مسلمانوں نے اردن کا رخ کیا تھا۔ اس لئے انہوں نے اسی صوبے کے ایک مشہور شہر وسان میں فوجیں جمع کرنی شروع کیں۔ شہنشاہ ہرقل نے دمشق کی امداد کے لئے جو فوجیں بھیجی تھیں اور دمشق تک نہ پہنچ سکی تھیں، وہ بھی اس میں آ کر شامل ہو گئیں۔ اس طرح تیس چالیس ہزار کا مجمع جمع ہو گیا۔ جس کا سپہ سالار سکار نام کا ایک رومی افسر تھا۔ موقعہ جنگ سمجھنے کے لئے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ شام کا ملک چھ ضلعوں میں منقسم ہے جن سے دمشق، حمص، اردن، فلسطین مشہور اضلاع ہیں۔ اردن کا صدر مقام طبریہ ہے جو دمشق سے چار منزل ہے۔ طبریہ کے مشرقی جانب بارہ میل کی لمبی ایک جھیل ہے جس کے قریب چند میل پر ایک چھوٹا سا شہر جس کا پرانا نام سلا اور نیا یعنی عربی نام فحل ہے۔ یہ لڑائی اسی شہر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام اب بالکل ویران ہے۔ تاہم اس کے کچھ کچھ آثار اب بھی سمندر کی سطح سے چھ سو فٹ بلندی پر محسوس ہوتے ہیں۔ ہیسان طبریہ کی جنوبی طرف 18 میل پر واقع ہے۔ غرض رومی فوجیں جس طرح ہیسان میں جمع ہوئیں، اور مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل پر پڑاؤ ڈالا۔ رومیوں نے اس ڈر سے کہ مسلمان دفعتہً نہ آ پڑیں، آس پاس جس قدر نہریں تھیں سب کے بند توڑ دیئے۔ اور فحل سے ہیسان تک تمام عالم آب ہو گیا۔ کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب کب رک سکتا تھا۔ مسلمانوں کا استقلال دیکھ کر عیسائی صلح پر آمادہ ہوئے اور ابو عبیدہ کے پاس پیغام بھیجا کہ کوئی شخص سفیر بن کر آئے۔ ابو عبیدہ نے معاذ بن جبل کو بھیجا۔ معاذ رومیوں کے لشکر میں پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہے وہیں ٹھہر گئے۔ ایک عیسائی نے آ کر کہا کہ گھوڑا میں تھام لیتا ہوں آپ دربار میں جا کر بیٹھئے۔ معاذ کی بزرگی اور تقدس کا عام چرچا تھا۔ اور عیسائی تک اس سے واقف تھے۔ اس لئے وہ واقعی ان کی عزت کرنی چاہتے تھے اور ان کا باہر کھڑے رہنا ان کو گراں گزرتا تھا۔ معاذ نے کہا کہ میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار ہوا ہے بیٹھنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے۔ عیسائیوں نے افسوس کیا اور کہا کہ ہم تمہاری عزت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن تم خود کو اپنی عزت کا خیال نہیں تو مجبوری ہے۔ معاذ کو غصہ آیا۔ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہا کہ جس کو تم عزت سمجھتے ہو مجھ کو اس کی پرواہ نہیں۔ اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو مجھ سے بڑھ کر کون خدا کا غلام ہو سکتا ہے ؟ رومی ان کی بے پروائی اور آزادی پر حیرت زدہ تھے ، یہاں تک ایک شخص نے پوچھا کہ مسلمانوں میں تم سے بھی کوئی بڑھ کر ہے ؟ انہوں نے کہا کہ " معاذ اللہ یہی بہت ہے کہ میں سب سے کم ترہوں۔ " رومی چپ ہو گئے۔ معاذ نے کچھ دیر انتظار کر کے مترجم سے کہا کہ " ان سے کہہ دو کہ اگر تم کو مجھ سے کچھ نہیں کہنا ہے تو میں واپس جاتا ہوں۔ " رومیوں نے کہا، ہم کو یہ پوچھنا کہ تم اس طرف کس غرض سے آئے ہو۔ ابی سینا کا ملک تم سے قریب ہے