الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رشوت سے محفوظ رکھنے کے وسائل 1 – تنخواہیں بیش بیش قرار مقرر کیں کہ بالائی رقم کی ضرورت نہ ہو۔ مثلاً سلمان ربیعہ اور قاضی شریح کی تنخواہ پانچ پانچ سو درہم ماہوار تھی (فتح القدیر حاژیہ ہدایہ جلد 3 صفحہ 247)۔ اور یہ تنخواہ اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے بالکل کافی تھی۔ 2 – قاعدہ مقرر کیا کہ جو شخص دولت مند اور معزز نہ ہو قاضی مقرر نہ ہونے پائے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گورنر کوفہ کو جو فرمان لکھا اس میں قاعدے کی وجہ یہ کہ دولت مند رشوت کی طرف راغب نہ ہو گا۔ اور معزز آدمی پر فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب و داب کا اثر نہ ہو گا۔ (اخبار القضاۃ لمحمد بن خلف الوکیع) ان باتوں کے ساتھ ساتھ کسی قاضی کو تجارت اور خرید و فروخت کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اور یہ وہ اصول ہے جو مدتوں کے تجربے کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں اختیار کیا گیا ہے۔ انصاف میں مساوات عدالت و انصاف کا ایک بڑا لازمہ عام مساوات کا لحاظ ہے۔ یعنی دیوان عدالت میں شاہ و گدا، امیر و غریب، شریف و رذیل سب ہم مرتبہ سمجھے جائیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کے تجربے اور امتحان کے لیے متعدد دفعہ خود عدالت میں فریق مقدمہ بن کر گئے۔ ایک دفعہ ان میں اور ابی ابن کعب میں کچھ نزاع تھی۔ ابی نے زید بن ثابت کے ہاں مقدمہ دائر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے ، زید نے تعظیم دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تمہارا پہلا ظلم ہے۔ یہ کہہ کر ابی کے برابر بیٹھ گئے۔ ابی نے قاعدے کے موافق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قسم لینی چاہی۔ لیکن زید نے ان کے رتبے کا پاس کر کے ابی سے درخواست کی امیر المومنین کو قسم سے معاف رکھو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرف داری پر نہایت رنجیدہ ہوئے۔ زید کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ " جب تک تمہارے نزدیک ایک عام آدمی اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر نہ ہوں تم منصب قضاء کے قابل نہیں سمجھے جا سکتے۔ " قضاۃ اور ان کی کاروائیوں کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قسم کے اصول اختیار کئے اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کے عہد خلافت میں بلکہ بنو امیہ کے دور تک عموماً قضاۃ ظلم و ناانصافی کے الزام سے پاک رہے۔ علامہ ابو ہلال عسکری نے