الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیت المال کا خیال بیت المال یعنی خزانہ کا بہت خیال رکھتے اور کسی قسم کی رقم کو اس کے احاطے سے باہر نہیں سمجھتے۔ خانہ کعبہ میں مدت کا چڑھاوا جمع تھا۔ اس کی نسبت فرمایا کہ لقد ھممت ان الاادع فیھا صفراء ولا بیضاء الاقسمتہ (صحیح بخاری باب کسوۃ الکعبہ) یعنی " میں نے ارادہ کیا ہے کہ جو کچھ اس میں سونا چاندی ہے سب لوگوں کو تقسیم کر دوں۔ " ایک دفعہ غنیمت کا مال آیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ) کو خبر ہوئی۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئیں اور کہا امیر المومنین! اس میں سے میرا حق مجھ کو عنایت کیجئے۔ کیونکہ میں ذوالقربی میں سے ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ " جان پدر! تیرا حق میرے خاص مال میں سے ہے لیکن یہ غنیمت کا مال ہے۔ تو نے اپنے باپ کو دھوکہ دینا چاہا۔ وہ بیچاری خفیف ہو کر اٹھ گئیں۔ (مسند امام احمد حنبل)۔ شام کی فتح کے بعد قیصر روم سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے اور خط و کتابت رہتی تھی۔ ایک دفعہ ام کلثوم (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ) نے قیصر کی حرم کے پاس تحفہ کے طور پر عطر کی چند شیشیاں بھیجیں۔ اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حال معلوم ہوا تو فرمایا کہ گو عطر تمہارا تھا لیکن قاصد جو لے گیا تھا وہ سرکاری تھا اور اس کے مصارف عام آمدنی میں سے ادا کئے گئے۔ غرض وہ جواہرات لے کر بیت المال میں داخل کر دیئے گئے اور ان کو کچھ معاوضہ دے دیا گیا۔ ایک دفعہ بیمار پڑ گئے۔ لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا۔ بیت المال میں شہد موجود تھا لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے۔ مسجد نبوی میں جا کر لوگوں سے کہا کہ اگر اجازت دیں تو بیت المال سے تھوڑا سے شہد لے لوں (کنز العمال جلد 6، صفحہ 354)۔ اس کاروائی کا مطلب اجازت کے سوا یہ ظاہر کرنا تھا کہ خزانہ عامہ پر خلیفہ وقت کو اتنا اختیار بھی نہیں۔