الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یورپین مؤرخین کی رائے کی غلطی یہ جواب گو واقعیت سے بالکل خالی نہیں، لیکن جس قدر واقعیت ہے اس سے زیادہ طرز استدلال کی ملمع سازی ہے۔ جو یورپ کا خاص انداز ہے۔ بے شبہ اس وقت فارس و روم کی سلطنتیں اپنے عروج پر نہیں رہی تھیں، لیکن اس کا صرف اس قدر نتیجہ ہو سکتا تھا کہ وہ پر زور قوی سلطنت کا مقابلہ نہ کر سکتیں نہ یہ کہ عرب جیسی بے سر و سامان قوم سے ٹکرا کر پرزے پرزے ہو جاتیں۔ روم و فارس گو کسی حالت میں تھے تاہم فنون جنگ میں ماہر تھے۔ یونان میں خاص قواعد حرب پر جو کتابیں لکھی گئی تھیں اور جو اب تک موجود ہیں رومیوں میں ایک مدت تک ان کا عملی رواج رہا۔ اس کے ساتھ رسد کی فراوانی، سر و سامان کی بہتات، آلات جنگ کے تنوع فوجوں کی کثرت میں کمی نہیں آئی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ملک پر چڑھ کر جانا نہ تھا بلکہ اپنے ملک میں اپنے قلعوں میں اپنے مورچوں میں رہ کر اپنے ملک کی حفاظت کرنی تھی، مسلمانوں کے حملے سے ذرا ہی پہلے خسرو پرویز کے عہد میں جو ایران کی شان و شوکت کی عین شباب تھا۔ قیصر روم نے ایران پر حملہ کیا اور ہر قدم پر فتوحات حاصل کرتا ہوا اصفہان تک پہنچ گیا۔ شام کے صوبے جو ایرانیوں نے چھین لیے تھے واپس لے لیے اور نئے سرے سے نظم و نسق قائم کیا۔ ایران میں خسرو پرویز تک تو عموماً مسلم ہے کہ سلطنت کو نہایت جاہ جلال تھا۔ خسرو پرویز کی وفات سے اسلامی حملے تک صرف تین چار برس کی مدت ہے۔ اتنے تھوڑے عرصے میں ایسی قوم اور قدیم سلطنت کہاں تک کمزور ہو سکتی تھی۔ البتہ تخت نشینوں کی ادل بدل سے نظام میں فرق آ گیا تھا۔ لیکن چونکہ سلطنت کے اجزاء یعنی خزانہ، فوج اور محاصل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اس لیے جب یزد گرد تخت نشین ہوا اور درباریوں نے اصلاح کی طرف توجہ کی تو فوراً نئے سرے سے وہی ٹھاٹھ قائم ہو گئے۔ مزوکیہ فرقہ گو ایران میں موجود تھا۔ لیکن ہم کو تمام تاریخ میں ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرقہ نسٹورین کی کوئی اعانت یا ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرقہ نسٹورین کی کوئی اعانت کی کوئی اعانت ہم کو معلوم نہیں۔ عیسائیت کے اختلاف مذہب کا اثر بھی کسی واقعہ پر خود یورپین مؤرخوں نے کہیں نہیں بتایا۔ اب عرب کی حالت دیکھو! تمام فوجیں جو مصر و ایران و روم کی جنگ میں مصروف تھیں ان کی مجموعی تعداد کبھی ایک لاکھ تک بھی نہ پہنچی۔ فنون جنگ سے واقفیت کا یہ حال تھا کہ یرموک پہلا معرکہ ہے جس میں عرب میں تعبیہ کے طرز پر صف آرائی کی۔ خود، زرہ، چلتہ، جوشن، بکتر، چار آئینہ، آہنی دستانے ، جہلم موزے جو ہر ایرانی سپاہی کا لازمی ملبوس جنگ تھا۔ (بن قتیبہ نے اخبار الطوال میں لکھا ہے۔ یہ چیزیں ہر سپاہی کو استعمال کرنی پڑتی تھیں۔ ) اس میں سے عربوں کے پاس صرف زرہ تھی اور وہ بھی اکثر چمڑے کی ہوتی تھی۔ رکاب لوہے کی بجائے لکڑی کی ہوتی تھی۔ آلات جنگ میں گرز و کمند سے عرب