الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مکران پر حکم بن عمرو التغلبی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ 23 ہجری میں روانہ ہو کر نہر مکران کے اس طرف فوجیں اتاریں، مکران کا بادشاہ جس کا نام راسل تھا خود پار اتر کر آیا اور صف آرائی کی۔ ایک بڑی جنگ کے بعد راسل نے شکست کھائی اور مکران پر قبضہ ہو گیا۔ حکم نے نامہ فتح کے ساتھ چند ہاتھی بھی جو لوٹ میں میں آئے تھے ، دربار خلافت میں بھیجے۔ صحار عبدی جو نامہ فتح لے کر گئے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے مکران کا حال پوچھا، انہوں نے کہا " ارضً سھلھا جبلً ماء ھاوشلً و ثمر ھاوقلً و عدوھا بطلً و خیرھا قلیلً و شرھا طویلً والکثیر بھا قلیلً۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا واقعات کے بیان کرنے میں قافیہ بندی کا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں واقعی حالات بیان کرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ بھیجا کہ فوجیں جہاں تک پہنچ چکی ہیں وہیں رک جائیں۔ چنانچہ فتوحات فاروقی کی اخیر حد یہی مکران ہے لیکن یہ طبریٰ کا بیان ہے۔ مؤرخ بلاذری کی روایت ہے کہ دیبل کے نشیبی حصہ اور تھانہ تک فوجیں آئیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اسلام کا قدم سندھ و ہندوستان میں بھی آ چکا تھا۔ خراسان کی فتح اور یزدگرد کی ہزیمت۲۳ ہجری (644 عیسوی) (علامہ بلاذری کے نزدیک تمام ماورا النہر فرغانہ، خوارزم، طخارستان اور سیستان کا رقبہ خراسان میں داخل تھا مگر اصل یہ ہے کہ اس کے حدود ہر زمانے میں مختلف رہے ہیں۔ اس کے مشہور شہر نیشاپور، مرو، ہرات، بلخ، طوس فسا اور ابی درد وغیرہ تھے۔ جن میں سے پچھلے با بالکل ویران ہیں۔ ) اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن جن افسروں کو ملک گیری کے علم بھیجے تھے ان میں احتف بن قیس بھی تھے۔ اور ان کو خراسان کا علم عنایت ہوا تھا۔ احتف نے 22 ہجری میں خراسان کا رخ کیا۔ طیسن ہو کر ہرات پہنچے اور اس کو فتح کر کے مرد شاہجہان پر بڑھے ، یزدگر شاہنشاہ فارس یہیں مقیم تھا۔ ان کی آمد سن کر مرور رود چلا گیا۔ اور خاقان چین اور دیگر سلاطین کو استمداد کے نامے لکھے۔ احتف نے مرد شاہجہان پر حارثہ بن النیمان باہلی چھوڑا اور خود مرورود کی طرف بڑھے۔ یزدگرد یہاں سے بھی بھاگا۔ اور سیدھا بلخ پہنچا۔ اس اثناء میں کوفہ سے امدادی فوجیں آ گئیں جس سے میمنہ و میسرہ وغیرہ کے افسر علقمہ بن الضری، ربعی بن عامر التمیمی، عبد اللہ بن ابی عقیل السقنی ابن ام غزال الہمدانی تھے۔ احتف نے تازہ دم فوج لے کر بلخ پر حملہ کیا۔ یزدگرد نے شکست کھائی اور دریا اتر کر خاقان کی حکومت میں چلا گیا۔ احتف نے میدان خالی پا کر ہر طرف فوجیں بھیج دیں اور نیشاپور طخارستان تک فتح کر لیا۔ مرورود کو تخت گاہ قرار دے کر مقام کیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامہ لکھا کہ خراسان اسلام کے قبضہ میں آ گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتوحات کی وسعت کو چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ خط پڑھ کر فرمایا کہ ہمارے اور خراسان کے بیچ میں آگ کا دریا حائل ہوتا تو خوب ہوتا، احتف کے مردانہ حوصلوں کی اگرچہ تعریف کی اور فرمایا کہ احتف شرقیوں کا سرتاج ہے۔ تاہم جواب نامہ میں لکھا کہ