الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گرچہ مانند در نو شیتن شیر و شیر قیاس فقہ کی توسیع اور تمام ضرورت کے لئے اس کا کافی ہونا قیاس پر موقوف ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں تمام چیزیں مذکور نہیں ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان جزئیات کے فیصلہ کرنے کے لئے قیاس شرعی سے کام لیا جائے۔ اسی ضرورت سے ائمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سب قیاس کے قائل ہوئے ہیں۔ اور ان کے مسائل کا ایک بڑا ماخذ قیاس ہے۔ لیکن قیاس کی بنیاد جس نے ڈالی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ قیاس کے موجد معاذ بن جبل ہیں، ان لوگوں کا استدلال یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا تو ان سے استفسار فرمایا کہ کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو کیا کرو گے ، انہوں نے کہا کہ قرآن مجید سے جواب دوں گا۔ اور اگر قرآن و حدیث میں وہ صورت مذکورہ نہ ہوئی تو اجتہاد کروں گا۔ (یہ حدیث مسند دارمی مطبوعہ نظامی صفحہ ۴۳ میں مذکور ہے )۔ لیکن اس سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا کہ ان کی مراد قیاس سے بھی۔ اجتہاد قیاس پر منحصر نہیں۔ ابن حزم، داؤد ظاہری وغیرہ سرے سے قیاس کے قائل نہ تھے۔ حالانکہ اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے اور مسائل شرعیہ میں اجتہاد کرتے تھے۔ مسند دارمی میں بہ سند مذکور ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تو قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے۔ قرآن میں وہ صورت مذکور نہ ہوتی تو حدیث سے جواب دیتے۔ حدیث بھی نہ ہوتی تو اکابر صحابہ کو جمع کرتے اور ان کے اتفاق رائے سے جو امر قرار پاتا اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک مسائل کے جواب میں قرآن مجید، حدیث اور اجماع سے کام لیا جاتا تھا۔ قیاس کا وجود نہ تھا۔ (مسند عارمی صفحہ 32) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری کو قضاء کے متعلق جو تحریر بھیجی، اس میں قیاس کی صاف ہدایت کی۔ چنانچہ اس کے یہ الفاظ ہیں۔ الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک ممالم یبلغک فی الکتاب والسنۃ و اعرف الامثال والا شباہ ثم قس الامور عند ذلک۔