الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وسعت دی کہ قیصر و کسریٰ کی وسیع سلطنتیں ٹوٹ کر عرم میں مل گئیں۔ دوسری طرف حکومت و سلطنت کا نظام قائم کیا اور اس کو اس قدر ترقی دی کہ ان کی وفات تک حکومت کے جس قدر مختلف شعبے ہیں سب وجود میں آ چکے تھے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم حکومت کے قواعد و آئین کی تفصیل بتائیں، پہلے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی ترکیب اور ساخت کیا تھی؟ یعنی شخصی تھی یا جمہوری؟ اگرچہ اس وقت عرب کا تمدن جس حد تک پہنچا تھا، اس کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر جمہوری یا شخصی دونوں میں سے کسی ایک کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا تھا لیکن ایسے موقع پر صرف اس ایک بات کا پتہ لگانا کافی ہے کہ حکومت کا جو انداز تھا وہ جمہوریت سے ملتا تھا یا شخصیت سے ملتا تھا۔ یعنی سلطنت کا میلان ذاتی اختیار پر تھا یا عام رائے پر۔ جمہوری اور شخصی سلطنت کا موازنہ جمہوری اور شخصی طریق حکومت میں جو چیز سب سے بڑھ کر مابہ الامتیاز ہے ، وہ عوام کی مداخلت اور عدم مداخلت ہے یعنی حکومت میں جس قدر رعایا کو دخل دینے کا زیادہ حق حاصل ہو گا اسی قدر اس میں جمہوریت کا عنصر زیادہ ہو گا۔ یہاں تک کہ سلطنت جمہوری کی آخری حد یہ ہے کہ مسند نشین حکومت کے ذاتی اختیارات بالکل فنا ہو جائیں اور وہ جماعت کا صرف ایک ممبر رہ جائے پر خلاف اس کے شخصی سلطنت میں تمام دار و مدار صرف ایک شخص پر ہوتا ہے۔ اس بناء پر شخصی سلطنت سے خواہ مخواہ نتائج ذیل پیدا ہوتے ہیں۔ 1 – بجائے اس کے کہ ملک کے تمام قابل اشخاص کی قابلیتیں کام میں آئیں۔ صرف چند ارکان سلطنت کی عقل و تدبیر پر کام چلتا ہے۔ 2 - چونکہ بجز چند عہدیداروں کے اور لوگوں کو ملکی انتظامات سے کچھ سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے قوم کے اکثر افراد سے انتظامی قوت اور قابلیت رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگتی ہے۔ ۳ - مختلف فرقوں اور جماعتوں کے خاص خاص حقوق کی اچھی طرح حفاظت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جن لوگوں کو ان حقوق سے غرض ہے ان کو انتظام سلطنت میں دخل نہیں ہوتا اور جن لوگوں کو دخل ہوتا ہے ان کو غیروں کے حقوق سے اس قدر ہمدردی نہیں ہو سکتی جتنی کہ خود ارباب حقوق کو ہو سکتی ہے۔ چونکہ بجز چند ارکان سلطنت کے کوئی شخص ملکی اور قومی کاموں میں دخل دینے کا مجاز نہیں ہوتا۔ اس لیے قوم میں ذاتی اغراض کے سوا قومی کارناموں کا مذاق معدوم ہو جاتا ہے۔ یہ