الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلی اللہ علیہ و سلم سے گستاخانہ کہا " عدل اختیار کر" حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصے سے بیتاب ہو گئے۔ اور چاہا کہ اس کو قتل کر دیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا۔ ان واقعات سے تم کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس طرح ہر موقع پر ان کی تلوار نیام سے نکلی پڑتی تھی اور کافر تو کافر خود مسلمان کے ساتھ ان کا کیا سلوک تھا۔ لیکن السلام کی برکت اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احتیاط اور خلافت کی مہمات نے ان کو رفتہ رفتہ نرم اور حلیم بنا دیا۔ یہاں تک کہ خلافت کے زمانے میں وہ کافروں تک کے ساتھ جس رحمدلی اور لطف کا برتاؤ کرتے تھے آج مسلمانوں سے مسلمان نہیں کرتے۔ آل اولاد کے ساتھ محبت ان کی خانگی زندگی کے حالات کم معلوم ہیں۔ قرائن سے اس قدر ثابت ہے کہ وہ ازواج و اولاد کے بہت دلدادہ نہ تھے۔ اور خصوصاً ازواج کے ساتھ ان کو بالکل شغف نہ تھا۔ جس کی وجہ زیادہ یہ تھی کہ وہ عورتوں کی جس قدر عزت کرنی چاہیے تھی نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری باب اللباس میں خود ان کا قول مذکور ہے کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو بالکل ہیج سمجھتے تھے۔ جب قرآن نازل ہوا اور اس میں عورتوں کا ذکر آیا تو ہم سمجھے کہ وہ بھی کوئی چیز ہیں۔ تاہم ہم ان کو معاملات میں بالکل دخل نہیں دینے دیتے تھے۔ اسی روایت میں ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنی بیوی کو سخت سست کہا۔ انہوں نے بھی برابر کا جواب دیا۔ اس پر کہا اب تمہارا یہ رتبہ پہنچا۔ وہ بولیں کہ تمہاری بیٹی بھی رسول اللہ سے دوبدو ایسی باتیں کرتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ کی ایک بیوی جمیلہ تھیں۔ ان کے بطن سے عاصم پیدا ہوئے۔ عاصم ابھی صغیرہ سن ہی تھے کہ حضرت عمر نے کسی وجہ سے ان کو طلاق دے دی۔ یہ حضرت ابو بکر کا زمانہ تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبا سے جہاں پہلے رہا کرتے تھے اٹھ کر مدینہ میں آ گئے۔ ایک دن اتفاق سے قباء کی طرف جا نکلے۔ عاصم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو پکڑ کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ اور ساتھ لے جانا چاہا۔ عاصم کی ماں کو خبر ہوئی۔ وہ آن کر مزاحم ہوئیں کہ میرا لڑکا ہے۔ میں اپنے پاس رکھوں گی۔ جھگڑے نے طول کھینچا اور وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں فریادی بن کر آئیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف فیصلہ کیا اور اس لئے وہ مجبور ہو گئے۔ یہ واقعہ مؤطا امام مالک وغیرہ میں مذکور ہے۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ان کا سلوک محبت اور رحم کے اس پایہ کا نہ تھا جیسا کہ اور بزرگوں کا تھا۔ اولاد و اہل خاندان سے بھی ان کو غیر معمولی محبت نہ تھی۔ البتہ زید سے جو حقیقی بھائی تھے نہایت الفت تھی۔ چنانچہ جب وہ یمامہ کی لڑائی میں شہید ہوئے تو بہت روئے اور سخت قلق ہوا۔ فرمایا کرتے تھے کہ جب یمامہ کی طرف سے ہوا چلتی ہے تو مجھ کو زید کی خوشبو آتی ہے۔ عرب کا مشہور مرثیہ گو