الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نعمان کا گھوڑا پھسل کر گرا، ساتھ ہی خود بھی گرے اور زخموں سے چور ہو گئے۔ ان کا امتیازی لباس جس سے وہ معرکے میں پہچانے جاتے تھے۔ کلاہ اور سفید قبا تھی۔ جونہی وہ گھوڑے سے گرے نعیم بن مقرن کے بھائی نے علم کو جھپٹ کر تھام لیا اور ان کی کلاہ اور قبا پہن کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اس تدبیر سے نعمان کے مرنے کا حال کسی کو معلوم نہ ہوا۔ اور لڑائی بدستور قائم رہی۔ اس مبارک زمانے میں مسلمانوں کو خدا نے ضبط و استقلال دیا تھا۔ اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ نعمان جس وقت زخمی ہو کر گرے تھے اعلان کر دیا تھا کہ میں مر بھی جاؤں تو کوئی شخص لڑائی چھوڑ کر میری طرف متوجہ نہ ہو۔ اتفاق سے ایک سپاہی ان کے پاس سے نکلا، دیکھا تو کچھ سانس باقی ہے۔ اور دم توڑ رہے ہیں، گھوڑے سے اتر کر ان کے پاس بیٹھنا چاہا۔ ان کا حکم یاد آ گیا۔ اسی طرح چھوڑ کر چلا گیا۔ فتح کے بعد ایک شخص سرہانے گیا۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا کہ کیا انجام ہوا؟ اس نے کہا "مسلمانوں کو فتح ہوئی" خدا کا شکر ادا کر کے کہا "فوراً عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دو۔ " رات ہوتے ہی عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا۔ حذیفہ بن الیمان نے جو نعمان کے بعد سر لشکر مقرر ہوئے نہاوند پہنچ کر مقام کیا۔ یہاں ایک مشہور آتش کدہ تھا۔ اس کا موبد حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ مجھ کو امن دیا جائے تو میں ایک متاع بے بہا کا پتہ دوں۔ چنانچہ کسریٰ پرویز کے نہایت بیش بہا جواہرات لا کر پیش کئے جس کو کسریٰ نے مشکل وقتوں کے لیے محفوظ رکھا تھا۔ حذیفہ نے مال غنیمت کو تقسیم کیا اور پانچواں حصہ مع جواہرات کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہفتوں سے لڑائی کی خبر نہیں پہنچی تھی۔ قاصد نے مژدۂ فتح سنایا تو بے انتہا خوش ہوئے۔ لیکن جب نعمان کا شہید ہونا سنا تو بے اختیار رہ پڑے اور دیر تک سر پر ہاتھ رکھ کر روتے رہے۔ قاصد نے اور شہداء کے نام گنائے اور کہا کہ بہت اور لوگ بھی شہید ہوئے جن کو میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر روئے اور فرمایا کہ "عمر جانے نہ جانے خدا ان کو جانتا ہے۔ " جواہرات کو دیکھ کر غصہ سے کہا کہ "فوراً واپس لے جاؤ۔ اور حذیفہ سے کہو کہ بیچ کر فوج کو تقسیم کر دیں۔ " چنانچہ یہ جواہرات چار کروڑ درہم کے فروخت ہوئے۔ " اس لڑائی میں تقریباً تیس ہزار عجمی لڑ کر مارے گئے۔ اس معرکہ کے بعد عجم نے کبھی زور نہیں پکڑا، چنانچہ عرب نے اس فتح کا نام فتح الفتوح رکھا۔ فیروز جس کے ہاتھ جس کے ہاتھ پر حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت لکھی تھی، اسی لڑائی میں گرفتار ہوا تھا۔ ایران پر عام لشکر کشی 21 ہجری (642 عیسوی)