الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محکمہ افتاء عدالت کے متعلق یہ ایک نہایت ضروری صیغہ ہے جو آغاز اسلام میں قائم ہوا اور جس کی مثال اسلام کے سوا اور کہیں پائی نہیں جاتی۔ قانون کے جو مقدم اصول ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر شخص کی نسبت یہ فرض کرنا چاہیے کہ قانون سے واقف ہے۔ یعنی مثلاً اگر کوئی شخص کوئی جرم کرے تو اس کا یہ عذر کام نہیں آ سکتا کہ وہ اس فعل کا جرم ہونا نہیں جانتا تھا۔ یہ قاعدہ تمام دنیا میں مسلم ہے اور حال کے ترقی یافتہ ملکوں نے اس پر زور دیا ہے۔ بے شبہ قاعدہ صحیح ہے لیکن تعجب یہ ہے کہ اور قوموں نے اس کے لیے کسی قسم کی تدبیر اختیار نہیں کی۔ یورپ میں تعلیم اس قدر عام ہو چکی ہے لیکن اس درجے کو نہیں پہنچ سکی۔ اور نہ پہنچ سکتی ہے کہ ہر شخص قانون دان بن جائے۔ کوئی جاہل شخص قانون کا کوئی مسئلہ جاننا چاہے تو اس کے لیے کوئی تدبیر نہیں۔ لیکن اسلام میں اس کا ایک خاص محکمہ تھا۔ جس کا نام افتاء تھا۔ اس کا یہ طریقہ تھا کہ نہایت لائق قانون دان یعنی فقہاء ہر جگہ موجود رہتے تھے اور جو شخص کوئی مسئلہ دریافت کرنا چاہتا تھا ان سے دریافت کر سکتا تھا۔ اور اس لیے کوئی شخص یہ عذر نہیں کر سکتا تھا کہ وہ قانون کے مسئلے سے ناواقف تھا۔ یہ طریقہ آغاز اسلام میں خود بخود پیدا ہوا۔ اور اب تک قائم ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جس پابندی کے ساتھ اس پر عمل رہا۔ زمانہ مابعد بلکہ ان سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی نہیں رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے مفتی اس طریقے کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ عام اجازت نہ ہو بلکہ خاص خاص قابل لوگ افتاء کے لیے نامزد کر دیئے جائیں تا کہ ہر کس و ناکس غلط مسائل کی ترویج نہ کر سکے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس تشخیص کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ جن لوگوں کو انہوں نے افتاء کی اجازت دی مثلاً حضرت علی، حضرت عثمان، معاذ بن جبل، عبد الرحمٰن بن عوف، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو ہریرہ اور ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ وغیرہ ان کے سوا اور لوگ فتویٰ دینے کے مجاز نہ تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحب (کتاب مذکور صفحہ 130) ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں کہ " سابق وعظ و فتویٰ موقوف بود، بر رائے خلیفہ و عظمی گفتند و فتویٰ دادند۔ " تاریخوں میں ان کی بہت سے مثالیں موجود ہیں کہ جن لوگوں کو فتویٰ کی اجازت نہ تھی انہوں نے فتوے دیئے ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ انکو منع کر دیا۔ چنانچہ ایک دفعہ عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ بھی یہ واقعہ گزرا (مسند داری و ازالۃ الخفاء صفحہ 130)۔ بلکہ ان کو یہاں تک احتیاط تھی کہ مقرر شدہ مفتیوں کی بھی جانچ کرتے رہتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی